آسٹریا: مالی امداد ملنے کے باوجود مہاجرین جانے کو تیار نہیں
شمشیر حیدر AP
23 جون 2017
آسٹریا میں تارکین وطن کی رضاکارانہ وطن واپسی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک ہزار یورو تک کی مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود اس اسکیم کے تحت اپنے وطنوں کی جانب لوٹنے والے پناہ گزینوں کی تعداد نہایت کم ہے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ویانا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس برس آسٹریا سے مالی معاونت کے ساتھ رضاکارانہ طور پر اپنے وطن لوٹنے والے تارکین وطن کی تعداد پچھلے برس کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
آسٹرین وزارت داخلہ کے مطابق آسٹریا میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے غیر یورپی غیر ملکیوں کی رضاکارانہ وطن واپسی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے خصوصی پریمیئم اسکیم تین ماہ قبل شروع کی گئی تھی۔
اس اسکیم کے تحت اپنی مرضی سے اپنے وطنوں کی جانب لوٹنے والے تارکین وطن کو ایک ہزار یورو کی مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم اس مالی امداد کے باجود اسکیم شروع کیے جانے سے لے کر اب تک محض 427 غیر ملکی اس آفر کے ذریعے آسٹریا سے واپس اپنے وطنوں کی جانب لوٹے ہیں۔ یہ تعداد آسٹرین حکام کی توقع سے نہایت کم رہی ہے۔
دوسری جانب بحیثیت مجموعی بھی آسٹریا سے واپس جانے والے پناہ کے متلاشی افراد کی شرح اس برس کافی کم رہی ہے۔ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس کے پہلے پانچ ماہ کے دوران 1855 تارکین وطن آسٹریا سے واپس اپنے وطنوں کی جانب لوٹے۔ پچھلے برس اسی دورانیے میں آسٹریا سے لوٹ جانے والے غیر ملکیوں کی تعداد اس برس کے مقابلے میں چونسٹھ فیصد زیادہ تھی۔
ویانا حکام کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پریمیئم اسکیم سے استفادہ کرنے والے زیادہ تر غیر ملکیوں کا تعلق عراق، افغانستان اور ایران جیسے ممالک سے ہے۔
اس خصوصی اسکیم میں یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد شامل نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے غیر ملکیوں کو بھی، جو آسٹریا میں کسی بھی قسم کے جرائم میں ملوث ہوں، اس اسکیم میں شامل نہیں کیا جاتا۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔