آسٹریا میں اسکولوں میں ہیڈ اسکارف پر پابندی کا قانون منظور
11 دسمبر 2025
آسٹریا کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام لڑکیوں کو ''جبر سے بچانے‘‘ کے لیے کیا گیا ہے، تاہم ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے امتیازی قرار دے رہی ہیں۔ یہ قانون پر دے کے اسلامی احکامات بشمول حجاب اور برقعے پر لاگو ہوگا جبکہ اس کا نفاز نئے تعلیمی سال کے آغاز یعنی ستمبر سے نافذ ہوگا۔ اس سلسلے میں فروری سے آگاہی مہم شروع کی جائے گی جبکہ بار بار خلاف ورزی پر والدین کو 150 سے 800 یورو تک جرمانہ ہوگا۔
حکومت کے مطابق تقریباً 12 ہزار لڑکیاں اس قانون سے متاثر ہوں گی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون آئینی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک مذہب کو نشانہ بناتا ہے اور معاشرتی تقسیم کو بڑھا سکتا ہے۔
لبرل جماعت نیوس کے رکن یانک شیٹی نے کہا، ''ہیڈ اسکارف محض لباس نہیں بلکہ لڑکیوں کو پہناوے کو ایک جنسی رنگ دیتا ہے‘‘ جبکہ انٹیگریشن منسٹر کلاؤڈیا پلاکوم نے اسے '' جبر‘‘ قرار دیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کو یہ بتانا کہ وہ کیا پہنیں، آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔
'بدنام اور الگ تھلگ‘
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہیڈ اسکارف پر پابندی کا مطلب خواتین سے اپنی مرضی سے لباس پہننے کا فیصلے کی آزادی چھین کر انہیں یہ بتانا ہے کہ وہ کیا پہنیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل آسٹریا سمیت کئی تنظیموں نے اس بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی نے اسے ''مسلم لڑکیوں کے خلاف کھلا امتیازی سلوک‘‘ اور ''انسدادِ مسلم نسل پرستی کا اظہار‘‘ قرار دیا۔ تنظیم نے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات ''مسلمانوں کے خلاف موجودہ تعصبات اور دقیانوسی تصورات کو مزید ہوا دے سکتے ہیں‘‘۔
یہ مسودہ قانون ملک کی مسلم کمیونٹیز کی نمائندہ تنظیم IGGOe کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنا، جس نے کہا کہ یہ پابندی ''سماجی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالتی ہے‘‘ اور ''بچوں کو بااختیار بنانے کی بجائے انہیں بدنام اور الگ تھلگ کرتی ہے۔‘‘
خواتین کے حقوق کی تنظیم امازون کی ڈائریکٹر انگیلیکا آٹسنگر نے کہا کہ ہیڈ اسکارف پر پابندی ''لڑکیوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ان کے جسم کے بارے میں فیصلے دوسروں کے لیے جائز ہیں‘‘۔ ان کے یہ خیالات انسدادِ نسل پرستی گروپ SOS Mitmensch کے جاری کردہ بیان میں شامل تھے، جو اس قانون کی مخالفت کرتا ہے۔
دوسری جانب آسٹریا کی انتہا پسند دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی (FPOe) نے کہا کہ یہ پابندی کافی نہیں اور مطالبہ کیا کہ اسے تمام طلبہ، اساتذہ اور دیگر عملے تک بڑھایا جائے۔
یاد رہے کہ فرانس میں 2004 سے اسکولوں میں مذہبی وابستگی ظاہر کرنے والے نشانات، جیسے ہیڈ اسکارف، پگڑی یا یہودی ٹوپی، سیکولر قوانین کے تحت ممنوع ہیں تاکہ ریاستی اداروں میں غیر جانبداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
ادارت: شکور رحیم