1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمآسٹریا

آسٹریا میں انڈر 14 طالبات کے ہیڈ اسکارف پر پابندی زیر غور

مقبول ملک ، ڈی پی اے اور اے پی اے کے ساتھ
13 ستمبر 2025

یورپی ملک آسٹریا میں حکومت 14 سال سے کم عمر کی طالبات کے اسکولوں میں ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی لگا دینے پر غور کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ویانا میں مخلوط حکومت نے ملکی پارلیمان میں ایک مسودہ قانون بھی پیش کر دیا ہے۔

ایک اسکول کی طالبات کا گروپ جن میں سے ایک نے ہیڈ اسکارف پہنا ہوا ہے
ایک اسکول کی طالبات کا گروپ جن میں سے ایک نے ہیڈ اسکارف پہنا ہوا ہےتصویر: Julian Stratenschulte/dpa/picture alliance

ایلپس کے پہاڑی سلسلے کی جمہوریہ آسٹریا میں ویانا سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق حکومت ایک ایسا قانون منظور کرانا چاہتی ہے، جس کے تحت ملکی اسکولوں میں زیر تعلیم 14 سال سے کم عمر کی طالبات کی طرف سے اسکولوں میں ہیڈ اسکارف پہننا ممنوع ہو گا۔

ویانا میں اس وقت قدامت پسندوں کی پیپلز پارٹی، بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سوشل ڈیموکریٹس اور نئے ترقی پسندوں کی جماعت پر مشتمل ایک مخلوط حکومت اقتدار میں ہے۔ اس بارے میں حکومتی ارادوں کی وضاحت کرتے ہوئے سماجی انضمام کے امور کی آسٹرین وزیر کلاؤڈیا پلاکولم نے کہا، ''چھوٹی بچیاں جب ہیڈ اسکارف پہنتی ہیں، تو ان کی آزادی محدود ہو جاتی ہے، اس لیے کم عمر لڑکیوں کے لیے سر ڈھانپنے کی خاطر استعمال ہونے والے اسکارف کی حیثیت واضح طور پر جبر کی ایک علامت کی ہے۔‘‘

کلاؤڈیا پلاکولم نے یہ بھی کہا کہ بچیاں جو ہیڈ اسکارف پہنتی ہیں، ان سے ان کا اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھنا بھی محدود ہو جاتا ہے۔

ایک ہائی اسکول کے کلاس روم میں بیٹھے ہوئے طلبا و طالبات، دائیں طرف بیٹھی ایک لڑکی نے ہیڈ اسکارف پہنا ہوا ہےتصویر: Axel Heimken/dpa/picture alliance

ممکنہ پابندی کی خلاف ورزی پر بتدریج اقدامات

آسٹرین پریس ایجنسی اے پی اے نے بتایا ہے کہ حکومت اس مجوزہ پابندی کو مستقبل میں نافذ کرنے کے بعد تعلیمی اداروں میں اس کی خلاف ورزی کرنے والی بچیوں کے بارے میں بتدریج اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تارکین وطن کے سماجی انضمام کی وزیر کے مطابق ایسی صورت میں پہلے تو اسکول کی انتظامیہ متعلقہ طالبہ سے بات کرے گی اور ساتھ ہی اس کے والدین کو بھی مطلع کر دیا جائے گا۔

لیکن اس کے بعد بھی 14 سال سے کم عمر کی کوئی طالبہ اگر ہیڈ اسکارف پہن کر اسکول آئے گی، تو معاملہ محکمہ تعلیم کے حکام تک پہنچا دیا جائے گا۔ آخری حل کے طور پر ایسی کسی بچی کے والدین کو 200 یورو سے لے کر 1000 یورو تک جرمانہ کیا جا سکے گا یا پھر انہیں سزائے قید بھی سنائی جا سکے گی۔

آسٹرین دارالحکومت ویانا کی ایک مسجد میں نمازی جمعے کا خطبہ سنتے ہوئےتصویر: Leonhard Foeger/REUTERS

پارلیمانی منظوری ابھی باقی

ملکی حکومت کی طرف سے یہ قانونی بل رواں ہفتے ہی وفاقی پارلیمان میں پیش کیا گیا، لیکن اس کی پارلیمانی منظوری ابھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اب تک غیر واضح ہے کہ یورپی یونین کے رکن ملک آسٹریا کی وفاقی آئینی عدالت اس نئے مسودہ قانون کو کیسے دیکھے گی۔ قبل ازیں 2020ء میں اس عدالت نے ایک ایسی پابندی کو منسوخ کر دیا تھا، جو پرائمری اسکولوں میں چھوٹی بچیوں کے ہیڈ اسکارف پہننے پر لگائی گئی تھی۔

تب اپنے فیصلے میں آئینی عدالت کے ججوں نے کہا تھا کہ اس پابندی کے ذریعے صرف مسلمان بچیوں کو ہی ہدف بنایا گیا تھا اور متعلقہ قانون اس بات کا احاطہ نہیں کرتا تھا کہ دیگر مذاہب کے بچوں بالخصوص لڑکوں کی طرف سے بھی سروں کو ڈھانپنے کے لیے مذہبی علامات مثلاﹰ ٹوپی یا پگڑی وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس بنیاد پر پانچ سال قبل ملکی آئینی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ صرف چھوٹی مسلم بچیوں کے ہیڈ اسکارف پر پابندی سے ان کے لیے معمول کے مطابق حصول تعلیم مشکل ہو جائے گا اور وہ سماجی طور پر بھی الگ تھلگ ہو کر رہ جائیں گی۔

مسلمان کمیونٹی کی طرف سے تنقید

آسٹریا کی مسلمان برادری کی نمائندہ تنظیموں نے ویانا حکومت کے اسکولوں میں ہیڈ اسکارف سے متعلق اس نئے مسودہ قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو ملکی آئینی عدالت کا گزشتہ فیصلہ ذہن میں رکھنا چاہیے تھا، مگر حکمران جماعتیں آج بھی اپنی ''علامتی سیاست‘‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آسٹرین اسلامک کمیونٹی نے اس بارے میں کہا، ''(ہیڈ اسکرف پر پابندی سے متعلق) ایک اور کوشش ملک میں قانون کی بالادستی پر اعتماد کو کمزور کرنے اور سماجی وحدت کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بنے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ بچیاں، جن کے ساتھ کئی طرح کے سٹگما جڑے ہوئے ہیں اور جو معاشرے کے مرکزی دھارے سے دور ہیں، انہیں مزید بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کیے جاتے۔‘‘

ادارت: شکور رحیم

مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں