یورپی ملک آسٹریا میں مکمل چہرے کے نقاب پر پابندی کے قانون ’برقعہ بین‘ کا اطلاق آج یکم اکتوبر سے کر دیا گیا ہے۔ آسٹریا میں پندرہ اکتوبر کے عام انتخابات میں مہاجر مخالف جماعتوں کی جیت کا امکان ہے۔
اشتہار
یورپی ملک آسٹریا میں مکمل چہرے کے نقاب پر پابندی کے قانون ’برقعہ بین‘ کا اطلاق آج یکم اکتوبر سے کر دیا گیا ہے۔ آسٹریا میں اس ماہ کی پندرہ تاریخ کو عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ان انتخابات میں مہاجرین مخالف جماعتوں کی جیت کا امکان ہے اور یہ جماعتیں مخلوط حکومت بنا سکتی ہیں۔
یورپی یونین کے اس رکن ملک میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مسلسل مرکز سے دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں۔ تاہم اس مرتبہ مہاجرین اور اسلام مخالف منشور کے تحت انتخابات لڑنے والی جماعتوں کی جیت اور اقتدار میں آنے کے اثرات یورپی یونین پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
03:23
گزشتہ ماہ جرمنی میں بھی دائیں بازو کی اسلام اور مہاجر مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی جرمنی میں تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آ چکی ہے اور آسٹریا میں ایسے ہی نظریات رکھنے والی جماعتوں کی حکومت یورپ بھر کی دائیں بازو کی عوامیت پسند پارٹیوں کو مزید تقویت دے سکتی ہیں۔
اس آسٹرین قانون کا نام ’پورا چہرہ چھپانے پر پابندی‘ رکھا گیا ہے۔ قانون کے مطابق عوامی مقامات پر ہسپتالوں یا پارٹیوں میں استعمال کیے جانے والے ماسک سمیت کسی بھی طرح مکمل چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور خلاف کرنے والوں کو ڈیڑھ سو یورو جرمانہ ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں آسٹرین پولیس کو بھی ضرورت پڑنے پر مرد و حضرات کو زبردستی چہرہ دکھانے پر مجبور کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
تاہم اس قانون کو عرف عام میں ’برقعہ بین‘ کہا جا رہا ہے جو کہ اس بات کا مظہر بھی ہے کہ اس قانون کے حامی اسے مکمل نقاب کرنے والی مسلم خواتین سے ہی منسوب کر رہے ہیں۔ آسٹریا میں مہاجرین کی آمد کے بعد بھی عوامی مقامات پر برقعہ پوش خواتین شاذ و نادر ہی دیکھی جاتی ہیں۔
ایک عوامی جائزے کے نتائج کے مطابق چہرہ ڈھانپنے کی مخالفت کرنے والے ہر سات میں سے پانچ افراد اسلام مخالف نعرے لگانے والی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے آسٹریا میں اسلام مخالف جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں نمایاں ترین فریڈم پارٹی اور پیپلز پارٹی ہیں اور یہ دونوں جماعتیں اجانب دشمنی پر مبنی سیاست کے باعث جانی جاتی ہیں۔
مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟
01:50
This browser does not support the video element.
’سینٹر رائٹ‘ سیاست کرنے والی پیپلز پارٹی عموما فریڈم پارٹی کی طرح کھل کر اسلام مخالف نعرے نہیں لگاتی تاہم پارٹی کی باگ ڈور سباستیان کُرز کے ہاتھ آنے کے بعد سے پیپلز پارٹی نے مہاجرین اور مہاجرت مخالف سیاست شروع کر رکھی ہے۔ دوسری جانب سوشل ڈیموکریٹک پارٹی عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ابھی تک ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق پیپلز پارٹی کو چونتیس فیصد، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ستائیس فیصد اور فریڈم پارٹی کو پچیس فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔