آسٹریا میں مساجد بند کرنے پر ترک صدر ایردوآن برہم
10 جون 2018ترک صدر ایردوآن نے آسٹریا میں سات غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والی مساجد کو بند کیے جانے اور ان مساجد سے منسلک درجنوں ترک نژاد اماموں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیتے ہوئے اس اقدام کو ’اسلام مخالف‘ قرار دیا ہے۔ استنبول میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ان کو خدشہ ہے کہ آسٹریا کے چانسلر کا یہ فیصلہ دنیا کو ’صلیب‘ اور ’ہلال‘ کے مابین جنگ کی طرف راغب کرے گا‘۔ صدر ایردوآن نے ’اسلام اور عیسائیت‘ کے درمیان جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’’اگر (آسٹریا) یہ عمل سرانجام دے گا تو ان کی جانب سے بھی اس معاملے پر جوابی رد عمل سامنے آئے گا‘‘ اور ’’مغربی ممالک کو درست سمت میں فیصلے کرنے چاہیے‘‘۔
نسل پرست اور تعصبانہ اقدام
جمعہ آٹھ جون کو آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کُرس نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیر ملکی مالی معاونت حاصل کرنے والی بیشتر مساجد کی تالہ بندی کر دی گئی ہے، درجنوں اماموں کی ملک بدری کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ان سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں ترک صدر کے ترجمان نے ویانا حکومت کے اس اقدام کو ملک میں بڑھتے اسلام مخالف، نسل پرست، عوامیت پسند اور تعصب پر مبنی جذبات کی عکاسی قرار دیا ہے۔
آسٹریا میں قریب تین لاکھ ساٹھ ہزار ترک نژاد افراد مقیم ہیں، جن میں سے ایک لاکھ سترہ ہزار ترک شہری ہیں۔ انقرہ اور ویانا حکومتوں کے درمیان بڑھتے تناؤ کی وجہ چانسلر کرس کے مہاجرین مخالف بیانات اور ترکی کی یورپی یونین کے رکنیت کے سسلسے میں مخالفت بھی ہے۔
سیاسی اسلام کے خلاف کریک ڈاؤن
دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے چانسلر کُرس کے مطابق یہ کریک ڈاؤن مذہب اسلام کے خلاف نہیں بلکہ بعض افراد کی جانب سے اسلام کے سایے میں جاری سیاسی ایجنڈے کے خلاف کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ویانا میں ایک ایسی مسجد کو بند کیا گیا ہے، جو ترک قوم پرستوں کے زیر انتظام تھی۔
مزید ویانا حکومت نے مسلمانوں کے ایک مسلمان مذہبی گروپ ’ عرب کمیونٹی‘ کو بھی تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ یہ مذہبی گروپ کم از کم چھ مساجد کا انتظام و انصرام رکھتا تھا۔
چانسلر سیباستیان کرس کے مطابق یہ فیصلہ مذہبی معاملات کے نگران ادارے کے کئی ہفتوں سے جاری تفتیشی عمل کے بعد کیا گیا ہے۔ آسٹریائی ادارے نے یہ تفتیش رواں برس اُن تصاویر کی اشاعت کے بعد شروع تھی جن میں ترکی کی حمایت یافتہ مساجد میں بچے پہلی عالمی جنگ کی گیلی پولی لڑائی کو پیش کرنے کے دوران مرنے اور مارنے کے مناظر کی اداکاری میں مصروف دکھائے گئے تھے۔ یہ تصاویر جرمن شہر کولون میں واقع ایک ترک۔اسلامی ثقافتی مرکز (اے ٹی آئی بی) تنظیم کی جانب سے شائع کی گئی تھی۔ واضح رہے یہ تنظیم ترکی کے مذہبی امور کے دفتر ’دیانت‘ کی شاخ ہے۔
دائیں بازو کی مقبولیت پسند سیاست
یورپ میں انتہائی دائیں بازوں کی حکومتوں کی جانب سے آسٹریا کے ’شدت پسندی کے خلاف‘ اقدام کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ترک صدر ایردوآن ملک میں مورخہ چوبیس جون کو متوقع عام انتخابات سے قبل اپنی انتخابی مہم میں ’مغرب مخالف‘ بیانات سے قدامت پسند ووٹرز کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے ترکی میں 2016ء کے دوران فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ایردوآن حکومت نے ملک میں درجنوں صحافی، مصنفین، انسانی حقوق کے کارکنان، اساتذہ اور وکلاء سمیت دیگر ترقی پسند افراد کو ریاست مخالف سازشوں کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
ع آ / ع ت (اے ایف پی، ڈی پی اے)