آسٹریا ایک روسی سفارت کار پر جاسوسی اور سفارت کاروں کو حاصل خصوصی اختیارات کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک سے نکال رہا ہے۔
اشتہار
ماسکو نے اس الزام کو بے بنیاد اور اس اقدام کو 'نقصان دہ‘ قرا ردیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایک آسٹریائی سفارت کو روس سے نکال رہا ہے۔
آسٹریا کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز بتایا کہ وہ سفارت کاروں کو حاصل خصوصی مراعات اور اختیارات کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ایک روسی سفارت کار کو ملک سے نکال دے گا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ”ان کا رویہ ویانا کنونشن کے مطابق نہیں تھا۔" ترجمان نے تاہم اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
تاہم ایک آسٹریائی اخبار کے مطابق روسی سفارت کار اقتصادی جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تھا۔ روسی سفارت کار کی مبینہ جاسوسی سرگرمیوں کا پتہ اس وقت چلا جب ایک ٹیکنالوجی کمپنی میں کام کرنے والے آسٹریائی ملازم نے روس کے لیے جاسوسی کرنے کا اعتراف کیا۔ اخبار کے مطابق مذکورہ روسی سفارت کار آسٹریائی شہری کی مدد سے ایک عرصے سے ٹیکنالوجی کمپنی کی جاسوسی کررہے تھے۔
آسٹریائی میڈیا کی رپورٹو ں کے مطابق روسی سفارت کار کو یکم ستمبر تک ملک چھوڑ دینا ہوگا۔
آسٹریائی حکومت کے اس اقدام کے جواب میں روسی سفارت خانے نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا”آسٹریائی حکام کے اس غیر ضروری فیصلے سے ہمیں کافی تکلیف پہنچی ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے تعمیری تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔"
روسی وزارت خارجہ نے بعد میں ایک بیان میں ویانا کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے بھی ایک آسٹریائی سفیر کو دفتر میں طلب کیا اور اسے ناپسندیدہ شخص قرار دیا ہے۔
روسی سفارت کار کو ملک سے نکالنے کا یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب صرف دو ماہ قبل ہی ایک عدالت نے ایک سابق آسٹریائی فوجی کرنل کو ایک دیگر معاملے میں روس کے لیے جاسوسی کرنے کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔
آسٹیریا کے روس کے ساتھ نسبتاً قریبی باہمی تعلقات ہیں۔ بڑی تعداد میں روسی سفارت کار ویانا میں مقیم ہیں، جہاں وہ اقوام متحدہ کی مختلف تنظیموں اور یورپ میں تنظیم برائے سلامتی اور تعاون (او ایس سی ای) میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے پی،روئٹرز).
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔