آسٹریا: پچاس ہزار تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ
3 فروری 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق آسٹرین حکومت کے اس منصوبے میں رضاکارانہ طور پر آسٹریا سے جانے کے والے پناہ گزینوں کے لیے مالی مراعات فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
آسٹریا کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ آسٹریا مزید ملکوں کو ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں شامل کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ محفوظ قرار دیے جانے والے ممالک کے شہریوں کو آسٹریا میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہو جائیں گے۔
ویانا حکومت نے جنوری کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ آسٹریا آنے والے تارکین وطن کی تعداد کو محدود کر کے 37 ہزار پانچ سو تک لے آیا جائے گا۔ گزشتہ برس یہ تعداد نوّے ہزار سے زیادہ تھی۔
آسٹریا کی قدامت پسند وزیر داخلہ یوہانا مِکل لائٹنر کا ڈی پی اے کو فراہم کیے گئے ایک بیان میں کہنا تھا، ’’آسٹریا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سے سب سے زیادہ مہاجرین کو ملک بدر کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم ملک بدریوں کی رفتار میں مزید اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘ مِکل لائٹنر یورپی یونین میں بھی پناہ حاصل کرنے کے قوانین کو مزید سخت بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔
آسٹریا میں برسر اقتدار اتحادی جماعتوں کی جانب سے پناہ کے سخت قوانین متعارف کرنے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا ہے کیونکہ حالیہ جائزوں کے مطابق مہاجرین مخالف جماعت فریڈم پارٹی کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
محفوظ ممالک کی نئی فہرست میں مراکش، الجزائر، تیونس، گھانا، جارجیا اور منگولیا کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ محفوظ ممالک قرار دیے جانے کے بعد ان ممالک سے آنے والے تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ دس روز کے اندر اندر کر دیا جائے گا۔
علاوہ ازیں ویانا حکومت نے ایسے تارکین وطن جو آسٹریا پہنچنے کے تین ماہ کے اندر اندر رضاکارانہ طور پر واپس اپنے ملک جانے کے لیے تیار ہیں، ان کے لیے 500 یورو کی مالی معاونت فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ جلد ملک بدری یقینی بنانے کے لیے چارٹرڈ فلائٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔
آسٹریا کا شمار جرمنی اور سویڈین کے بعد ان یورپی ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ پناہ کی درخواستیں جمع کرائی گئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے سویڈن نے بھی 80 ہزار ایسے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔