آسٹریا کا اطالوی سرحد پر فوج تعینات کرنے کا منصوبہ
عاطف بلوچ2 اپریل 2016
آسٹریا کی حکومت اٹلی سے متصل اپنی ایک اہم سرحدی گزر گاہ پر فوج تعینات کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس مجوزہ اقدام کا مقصد اٹلی سے آسٹریا میں مہاجرین کا داخلہ روکنا بتایا گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے آسٹریا کی وزارت دفاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں آسٹریا اور اٹلی کو ملانے والے برینر پاس پر فوج تعینات کی جا سکتی ہے۔
آسٹریائی وزیر دفاع ہنس پیٹر ڈوسکوسیل نے ایک جرمن اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدشہ ہے کہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اس راستے سے آسٹریا داخل ہو سکتی ہے، اس لیے اس مقام پر سکیورٹی بڑھانے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔
یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کے حوالے سے آسٹریا اور جرمنی کی حکومتوں کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ویانا حکومت پہلے بھی کہہ چکی ہے کہ وہ مہاجرین کے راستے روکنے کی خاطر سخت اقدامات اٹھا سکتی ہے۔
ہفتے کے دن آسٹریائی وزیر دفاع ڈوسکوسیل نے کہا، ’’یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی بیرونی سرحدوں کی نگرانی ابھی تک مؤثر نہیں بنائی جا سکی ہے، اس لیے آسٹریا جلد ہی قومی سرحدوں کی نگرانی کے لیے سخت ضوابط طے کر لے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں بیرنر پاس پر سختی کی جائے گی اور وہاں فوج تعینات کی جائے گی۔
جرمن روزنامے ’ڈی ویلٹ‘ سے گفتگو میں ڈوسکوسیل کا مزید کہنا تھا کہ اس سرحدی گزر گاہ پر تعینات کیے جانے والے فوجی دستے سرحدی محافظوں کی مدد فراہم کرنے کے علاوہ رجسٹریشن کے عمل میں بھی معاونت کریں گے اور ساتھ ہی امدادی کاموں میں بھی ہاتھ بٹائیں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا بنیادی مقصد غیر قانونی مہاجرین کے داخلے کو روکنا ہو گا۔
افریقہ میں انسانی اسمگلروں کا تعاقب
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
11 تصاویر1 | 11
آسٹریا کی حکومت کو خدشہ ہے کہ سمندری راستوں سے شمالی افریقی ممالک سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن بلغاریہ اور البانیا سے ہو کر شمالی یورپ پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ آسٹریا اور بلقان کی ریاستوں نے یونان میں موجود مہاجرین کے راستے پہلے ہی مسدود کر رکھے ہیں۔
ڈوسکوسیل نے مطالبہ کیا ہے کہ بحیرہ روم سے اٹلی کا رخ کرنے والے مہاجرین کی حوصلہ شکنی کی خاطر سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران ہی پانچ ہزار مہاجرین اس سمندری راستے سے یورپ پہنچ چکے ہیں جبکہ موسم معتدل ہونے سے مہاجرین کی بڑی تعداد یورپ کا رخ کر سکتی ہے۔