آسٹریا کی وزیر خارجہ کی شادی، روسی صدر کا رقص: نتیجہ تنقید
19 اگست 2018
یورپ کیا کہیں بھی ایسا بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی خاتون نے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے شادی کی ہو۔ ایسی کسی شادی میں روسی صدر بھی شامل ہوں اور وہ رقص بھی کریں، یہ تو اور بھی غیر معمولی بات ہے۔
اشتہار
روس میں ماسکو اور آسٹریا میں ویانا سے اتوار 19 اگست کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق کل ہفتہ اٹھارہ اگست کو آسٹریا کی خاتون وزیر خارجہ کارِن کنائسل کی شادی کی جو تقریب منعقد ہوئی، اس میں دلہن نے ذاتی طور پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔
روسی صدر اس دعوت پر خوش تھے اور انہیں ہفتہ 18 اگست ہی کو جرمن دارالحکومت سے کچھ دور وفاقی چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات بھی کرنا تھی۔ انہوں نے اپنا سفر کا پروگرام اس طرح ترتیب دیا کہ پہلے دن کے وقت انہوں نے آسٹریا میں وزیر خارجہ کنائسل کی شادی کی تقریب میں شرکت کی، پھر شام کے وقت جرمنی پہنچے، جہاں انہوں نے برلن سے قریب 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع میزے برگ محل میں چانسلر میرکل سے ملاقات کی۔
روسی صدر کی جرمن چانسلر سے ملاقات تو اچھی اور کامیاب ہی رہی، اور اس سے قبل آسٹریا میں کارِن کنائسل کی شادی کی تقریب میں بھی معاملہ صدر پوٹن کی حد تک تو بہت ٹھیک اور خوشگوار ہی تھا۔ شادی کی اس تقریب میں شرکت کے دوران روسی صدر نے آسٹرین وزیر خارجہ کو مبارکباد بھی دی اور پھر دلہن کے ساتھ رقص بھی کیا۔ اس پر بھی دلہن بہت خوش تھی۔
لیکن سیاسی طور پر آسٹرین وزیر خارجہ کی طرف سے روسی صدر پوٹن کو اپنی شادی کی تقریب میں شرکت کی دعوت دیے جانے پر کنائسل کے مخالف کئی سیاسی حلقے ناخوش تھے اور انہوں نے اس پر تنقید بھی کی۔
سیاسی ناقدین نے کہا کہ یوکرائن کے تنازعے میں روس کے کردار، یوکرائن کے علاقے کریمیا کو روس میں شامل کرنے کے پوٹن کے چند برس پہلے کے انتہائی متنازعہ فیصلے اور یورپی یونین کی طرف سے روس پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے کارِن کنائسل کو ولادیمیر پوٹن کو مدعو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ بھی ایک ایسے وقت پر جب رواں برس کی دوسری ششماہی میں یورپی یونین کی صدارت آسٹریا ہی کے پاس ہے۔
ان ناقدین کا کہنا ہے کہ آسٹرین وزیر خارجہ نے دلہن کے طور پر روسی صدر کو شادی میں شرکت کی دعوت دے کر اس سیاسی طرز عمل کی نفی کی، جو یورپی یونین کے روس کے ساتھ موجودہ سیاسی تعلقات کے باعث ویانا حکومت اور ملکی وزیر خارجہ کے پیش نظر رہنا چاہیے تھا، خاص کر آسٹریا کی یورپی یونین کے موجودہ صدر ملک کی حیثیت سے۔
جہاں تک روسی صدر کا تعلق ہے تو پوٹن نہ صرف خوشی سے اس شادی میں آئے بلکہ اپنے ساتھ کوساک مردوں پر مشتمل روسی موسیقاروں کا ایک ایسا چھوٹا سا طائفہ بھی لائے جس کے ارکان نے تقریب کے تقریباﹰ 100 مہمانوں کی تفریح کے لیے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
یورپی یونین اور روس کے درمیان کئی معاملات میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان میں یوکرائن کا تنازعہ بھی شامل ہے، شامی خانہ جنگی میں ماسکو کی طرف سے صدر اسد کی مکمل سیاسی اور فوجی حمایت بھی اور برطانیہ میں ایک سابق روسی جاسوس اور اس کی بیٹی پر اعصابی زہر سے اسی سال کیا جانے والا وہ حملہ بھی جس کا الزام لندن کی طرف سے روس پر لگایا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں آسٹریا میں اپوزیشن کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ژورگ لائشت فرِیڈ نے کہا، ’’وزیر خارجہ کنائسل کو صدر پوٹن کو مدعو نہیں کرنا چاہیے تھا، کیونکہ یہ دعوت دلہن کی طرف سے، جو وزیر خارجہ بھی ہیں، یورپی یونین کے ماسکو کے ساتھ تنازعے میں یونین کے موقف کو نظر انداز کرنے کے مترادف تھی۔‘‘
کنائسل کے بارے میں یہ بات اہم ہے کہ وہ خود آسٹریا کی کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتیں اور انہیں ملکی وزیر خارجہ حکمران عوامیت پسند جماعت فریڈم پارٹی نے بنایا تھا۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر آسٹرین فریڈم پارٹی نے روسی صدر کی جماعت ’متحدہ روس‘ کے ساتھ تعاون کا ایک معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔
ناقدین کے بقول یہی بالواسطہ سیاسی قربت اس بات کی وجہ رہی ہو گی کہ دلہن کنائسل نے روسی صدر پوٹن کو بھی اپنی شادی کا ایک مہمان بنانے کا فیصلہ کیا۔
م م / ع ب / روئٹرز، اے پی
ولادیمیر پوٹن کے سیاسی کیرئر پر ایک نظر
روس میں اٹھارہ مارچ کو منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں اقتدار پر مکمل قابض ولادیمیر پوٹن کی کامیابی یقینی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں سے برسراقتدار پوٹن کی سیاسی زندگی کب اور کیسے شروع ہوئی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Zemlianichenko
ولادت اور ابتدائی تعلیم
ولادیمیر ولادیمیروِچ پوٹن سات اکتوبر سن انیس سو باون کو سابق سوویت شہر لینن گراڈ (موجود سینٹ پیٹرز برگ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولادیمیر پوٹن تھا، جو ایک فیکٹری میں بطور فورمین ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنا بچپن ایک ایسے اپارٹمنٹ میں گزارا، جہاں تین کنبے رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے سن 1975 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
تصویر: picture-alliance/Globallookpress.com
پہلی ملازمت خفیہ ایجنسی میں
گریچویشن کے فوری بعد ہی پوٹن نے سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی ’کمیٹی فار اسٹیٹ سکیورٹی‘ KGB میں ملازمت اختیار لی۔ بطور غیر ملکی ایجنٹ انہوں نے 1985ء تا 1990ء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں خدمات سر انجام دیں۔ 1990ء میں پوٹن لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے نائب ڈین بن گئے۔
تصویر: AP
سیاست میں عملی قدم
جون سن 1991 میں پوٹن نے ’کے جی بی‘ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ تب انہوں نے لینن گراڈ کے میئر اناطولی سابچک کے مشیر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت پوٹن کو سٹی ہال میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہ بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کریملن میں داخلہ
سن انیس سو ستانوے میں سابق صدر بورس یلسن نے پوٹن کو کریملن کا نائب چیف ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ ایک سال بعد ہی پوٹن فیڈرل سکیورٹی سروس (ایف ایس بی) کے سربراہ بنا دیے گئے جبکہ انیس سو ننانوے میں انہیں ’رشین سکیورٹی کونسل‘ کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں روس میں اقتصادی اور سماجی مسائل شدید ہوتے جا رہے تھے۔
تصویر: Imago
بطور وزیر اعظم
نو اگست انیس سے ننانوے میں ہی بورس یلسن نے پوٹن کو وزیر اعظم مقرر کر دیا۔ اسکنڈلز کی زد میں آئے ہوئے یلسن اسی برس اکتیس دسمبر کو صدارت کے عہدے سے الگ ہوئے گئے اور پوٹن کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدارت کے عہدے پر براجمان
چھبیس مارچ سن دو ہزار کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پوٹن نے سات مئی کو بطور صدر حلف اٹھایا۔ تب کسی کو معلوم نہ تھا کہ پوٹن کا دور اقتدار نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ بن جائے گا۔ پوٹن کے پہلے دور صدارت میں روس نے اقتصادی مسائل پر قابو پایا، جس کی وجہ سے پوٹن کی عوامی مقولیت میں اضافہ ہوا۔
تصویر: AP
دوسری مدت صدارت
پندرہ مارچ سن دو ہزار چار کے صدارتی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر مہم چلاتے ہوئے پوٹن نے دوسری مرتبہ بھی کامیابی حاصل کر لی۔ سات مئی کے دن انہوں نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف اٹھایا۔ تاہم پوٹن کی طرف سے اقتدار پر قبضہ جمانے کی کوشش کے تناظر میں عوامی سطح پر ان کے خلاف ایک تحریک شروع ہونے لگی۔
تصویر: AP
اسرائیل کا دورہ
ستائیس اپریل سن دو ہزار سات میں پوٹن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یوں انہوں نے ایسے پہلے روسی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل کیا، جس نے اسرائیل کا دورہ کیا ہوا۔ اسی برس برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سے ملاقات کے دوران پوٹن لندن حکومت کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون میں بہتری کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/pool
صدر سے وزیر اعظم
دو مارچ سن دو ہزار آٹھ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن بطور امیدوار میدان میں نہ اترے کیونکہ روسی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص مسلسل دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ تاہم اس مرتبہ پوٹن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تب پوٹن کے انتہائی قریبی ساتھی دمتری میدودف کو روس کا صدر منتخب کیا گیا۔
تصویر: Reuters/Y. Kochetkov
تیسری مرتبہ صدر کا عہدہ
چوبیس ستمبر سن دو ہزار گیارہ کو میدودف نے ولادیمیر پوٹن کو ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ تب پوٹن نے تجویز کیا کہ اگر پارلیمانی الیکشن میں میدودف کی سیاسی پارٹی یونائٹڈ رشیا کو کامیابی ملتی ہے تو انہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے۔
تصویر: Getty Images/M.Metzel
دھاندلی کے الزامات اور مظاہرے
چار مارچ سن دو ہزار بارہ کے صدارتی انتخابات میں پوٹن کو 65 فیصد ووٹ ملے اور وہ تیسری مرتبہ ملکی صدر منتخب ہو گئے۔ تاہم اس مرتبہ اپوزیشن نے الزام عائد کیا کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کی گئی۔ سات مئی کو جب پوٹن نے صدر کا حلف اٹھایا تو روس بھر میں ان کے خلاف مظاہروں کا انعقاد بھی کیا گیا۔
تصویر: AP
چوتھی مرتبہ صدارت کے امیدوار
چھ دسمبر سن دو ہزار سترہ کو پوٹن نے اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی صدارت کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ روس میں اٹھارہ مارچ کو ہونے والے الیکشن میں پوٹن کی کامیابی یقینی قرار دی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور اقتدار کے ایوانوں پر ان کا قبضہ ہے، اس لیے وہ اس الیکشن میں بھی جیت جائیں گے۔