’آسٹریلیا میں انتہا پسندی کے بیج کافی پہلے بوئے گئے‘
4 اکتوبر 2015خبررساں ادارے روئٹزر نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ آسٹریلیا میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کی وجہ دراصل حکومتی پالیسیاں ہی ہیں۔ ان کے مطابق حکومت کی سخت پالیسیاں مسلمان نوجوانوں میں انتہا پسندی بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ آسٹریلیا کی حکومت ملک میں ٹین ایجرز کی طرف سے پرتشدد واقعات کی روک تھام اور انہی نو عمروں کی طرف سے شام میں جا کر داعش کے شانہ بشانہ لڑنے کے عمل کو روکنے کے لیے مشکلات کا شکار ہے۔
عراقی کرد نسل کے پندرہ سالہ نوجوان فرہاد خلیل محمد کے سڈنی میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے کے واقعے نے ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ یہ انتہا پسند لڑکا شدت پسند تنظیم داعش کی طرز کا حملہ کرنا چاہتا تھا۔ فرہاد نے جمعے کے دن ایک پولیس اسٹیشن کے باہر ہی فائرنگ کرتے ہوئے ایک سول اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے جواب میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اسے مار ڈالا تھا۔
الفریڈ ڈیکین انسٹی ٹیوٹ میں گلوبل اسلامک پولیٹکس سے وابستہ گریگ بارٹن نے ملک میں اسلامی انتہا پسندوں کی تعداد میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس وقت ملک کو ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے، جیسے حل کرنا مشکل نظر آ رہا ہے
آسٹریلیا کی مجموعی آبادی تقریباﹰ چوبیس ملین ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد صرف دو فیصد بنتی ہے۔ آسٹریلیا اور مشرقی وسطیٰ کے مابین طویل راستوں اور مسلم آبادی کی انتہائی کم تعداد کے باوجود بھی وہاں مسلم نوجوانوں کا انتہا پسندی کی طرف راغب ہونا کینبرا حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
کارٹین یونیورسٹی سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر عین علے کے مطابق حکومت کی طرف سے قومی سلامتی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرنا اور انتہائی زیادہ نگرانی ہی نازک معاملہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر ممالک سلامتی کے معاملات پر اثر انداز ہو سکنے والے مسائل کو معاشرتی حوالوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ علے کے مطابق اس صورت میں مختلف کمیونٹیوں میں اعتماد سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مسائل کے خاتمے کے لیے صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اہم کردار ادا نہیں کر سکتے ہیں۔
آٹھ سال قبل عین علے نے حکام کو خبردار کیا تھا کہ ایسے مسلمان بچوں میں بھی مرکزی معاشرتی دھارے سے الگ ہونے کے آثار پیدا ہو چکے تھے، جن کی عمریں صرف چھ برس کے قریب تھیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اُس وقت یہ بچے ایک ایسے ماحول میں نشوونما پا رہے تھے، جہاں ’دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ‘ کا حکومتی بیانیہ انتہائی شدید تھا۔ علے کے مطابق اس وجہ سے یہ بچے اور ان کے والدین کمیونٹی اور میڈیا کے دباؤ میں تھے اور ان کی معاشرتی زندگیوں پر منفی اثرات پڑنے لگ گئے تھے۔
عین علے اب کہتی ہیں کہ آسٹریلیا میں سیاسی بیانات اور مغربی ممالک میں انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین بھی مسلمان کنبوں کی روزمرہ زندگیوں پر منفی اثرات کا باعث بنے ہیں۔ تاہم آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے بہت سے دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ سازیوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔
الفریڈ ڈیکین انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ بارٹن البتہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کا انتہا پسندی کی طرف راغب ہونا ایک پرسرار بات ہے، جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، ’’ہم نہیں جانتے، مثال کے طور پر آسٹریلیا کے مقابلے میں امریکا میں نوجوانوں کا انتہا پسندی کی طرف راغب ہونے کی شرح کم ہے۔‘‘
آسٹریلیا میں سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ کے دور اقتدار میں اپنائی جانے والی پالیسیاں انتہائی سخت ثابت ہوئی ہیں لیکن اب مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ ماہ ہی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے وزیر اعظم میلکم ٹرن بُل اس صورتحال میں بہتری کے لیے بہتر حکمت عملی اختیار کریں گے۔