آسٹریلیا میں دنیا کی سب سے بڑی بیٹری کی تعمیر مکمل
شمشیر حیدر اے پی
2 دسمبر 2017
جنوبی آسٹریلیا میں دنیا کی سب سے بڑی لیتھیم آئن بیٹری کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا کے سربراہ نے رواں برس ستمبر میں بیٹری کی تعمیر سو دن میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
اشتہار
جنوبی آسٹریلیا کی صوبائی حکومت اور ٹیسلا کے مابین قابل تجدید توانی کے لیے سو میگا واٹ لیتھیم آئن بیٹریوں کی تعمیر کا معاہدہ رواں برس ستمبر میں طے پایا تھا۔ ٹیسلا کے سربراہ ایلون مُسک نے اس کی تعمیر سو دن میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
یکم دسمبر بروز جمعہ جنوبی آسٹریلیا کے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ دنیا کی اس سب سے بڑی بیٹری کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے اور اسے ملکی گرِڈ سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق جمعرات کی سہ پہر جب جنوبی آسٹریلیا میں درجہ حرارت تیس ڈگری تک پہنچا تو اس بیٹری نے قومی گرڈ میں ستر میگا واٹس بجلی فراہم کرنا شروع کر دی تھی۔
دنیا کی سب سے بڑی لیتھیم بیٹری کی تکمیل کے اس موقع پر صوبائی وزیر اعلیٰ جے ویدریل کا کہنا تھا، ’’جنوبی آسٹریلیا اب دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سب سے آگے ہے۔ اس بیٹری سے شہری اور کاروباری ادارے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن بجلی حاصل کر پائیں گے۔‘‘
ٹیسلا نے دنیا کی سب سے بڑی بیٹری کی تعمیر سو دن میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ کام ساٹھ دن ہی میں مکمل کر لیا گیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ جنوبی آسٹریلیا میں موسم گرما کا آغاز بھی دسمبر کے مہینے میں ہو جاتا ہے جس کے بعد بجلی کی طلب میں کافی زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
سمندر کی لہروں سے توانائی حاصل کرنا
04:26
ٹیسلا کے مطابق بجلی بند ہونے کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی یہ بیٹری تیس ہزار سے زائد گھروں کو ایک گھنٹے تک مسلسل بجلی فراہم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
لیتھیم آئن بیٹری کی تعمیر ایڈیلیڈ سے دو سو کلو میٹر دور جیمز ٹاؤن کے علاقے میں کی گئی ہے۔ اس علاقے میں فرانسیسی کمپنی نیون نے ہوا کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والی پون چکیوں کے پلانٹ لگا رکھے ہیں۔ لیتھیم آئن بیٹریاں ان پون چکیوں سے حاصل کی گئی بجلی اسٹور کریں گی جس کے بعد نیشنل گرڈ میں بجلی کی فراہمی میں استحکام پیدا ہو گا۔
آسٹریلیا کو بجلی کے بحران کا سامنا ہے اور گرِڈ آپریٹرز کے مطابق جنوب مشرقی آسٹریلیا میں اگلے برس قدرتی گیس سے پیدا کی جانے والی بجلی انتہائی کم ہو جائے گی۔ اس صورت حال میں حکام متبادل اور قابل تجدید توانائی کے حصول پر توجہ دے رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ دنیا کی اس سب سے بڑی لیتھیم آئن بیٹری کی تعمیر پر کتنی لاگت آئی ہے۔
لیڈ ٹیکنالوجی سے روشنی کی آلودگی میں اضافہ، آسمان گم ہوتا ہوا
بظاہر لیڈ لائٹس سے توانائی کا تحفظ ہوا ہے لیکن ان کی وجہ سے روشنی کی آلودگی بڑھی ہے۔ ان روشنیوں سے آسمان کی وسعت زیادہ روشن ہو گئی لیکن آسمان کے ستارے مدھم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/F. Pritz/picturedesk.com
ایک نایاب صورت گری: شفاف آسمان
بے شمار لوگ کھلا اور شفاف آسمان دیکھنے کے لیے شہروں سے دور ساحلِ سمندر یا پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں انسان ہوں گے وہاں مصنوعی روشنیاں بھی رات کو روشن ہوں گی۔ اس سے آسمان کی وسعت میں روشنی پھیل جاتی ہے اور ستاروں کا حسن مدھم پڑتے پڑتے معدوم ہو جاتا ہے۔
تصویر: Imago/Westend61
ايل ای ڈی لائٹس: چمک دار اور روشن
نئے قسم کے ايل ای ڈی لیمپس زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ اس باعث عام لوگ اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ لیڈ لیمپس کی روشنی نیلی طولِ موج (wavelength) کی وجہ سے دور سے بھی زیادہ روشن دکھائی دیتی ہے۔ لیڈ لیمپس کی وجہ سے روشنی کی آلُودگی بڑھی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/L. Xiaoyang
محفوظ علاقے بغیر روشنی کے
یورپ کی جنوبی آبزرویٹری یا رصد گاہ جنوبی امریکی ملک چلی میں قائم ہے۔ اس کی حدود میں گھروں کے باہر مصنوعی روشنیاں جلانے پر پابندی ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ یورپی آبزرویٹری انسانی بستیوں سے بھی خاصی دور قائم کی گئی ہے۔ دوسری جانب شہروں کے قریب قائم فلکیاتی رصد گاہوں کو آسمانی مشاہدے میں دقت کا سامنا رہتا ہے۔ شہروں میں زرد یا زردی مائل سفید بلب لگانے سے روشنی سے پیدا ہونے والی آلودگی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schulz-Rohr
پہلے پہل۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی کے ارضیاتی سائنس کے تحقیقی ادارے نے لائبنٹس انسٹیٹیوٹ اور برطانیہ کی ایکسیٹر یونیورسٹی کے تعاون سے ایسا سیٹلائٹ ڈیٹا حاصل کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیڈ لیمپوں کے متعارف کرانے سے قبل کا مجموعی منظر کیسا تھا۔ یہ تصویر اُسی ڈیٹا پر مشتمل ہے۔ اس ڈیٹا کے حصول میں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے ساتھ ساتھ امریکی شہر بولڈر کے پہاڑوں سے حاصل ڈیٹا بھی شامل ہے۔
تصویر: GFZ Potsdam
اور اب۔۔۔۔۔
پچھلی تصویر کے مقابلے میں اب جس ڈیٹا پر مشتمل تصویر آپ دیکھ رہے ہیں، وہ سن 2015 میں بنائی گئی تھی۔ اس میں روشنیوں کا تبدیل شدہ نظام واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سفید روشنیاں زیادہ پھیل چکی ہیں۔ اس روشنی کا حجم جمع کرنا مشکل ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمینی روشنیاں پہلے سے طے کردہ معلومات کے مقابلے میں میں زیادہ طاقت ور ہیں۔
تصویر: GFZ Potsdam
روشنیوں کی پیمائش
مصنوعی روشنیوں کی پیمائش کے آلے کو وزیبل انفراریڈ امیجنگ ریڈیومیٹر (VIIRS) کہا جاتا ہے۔ اس آلے سے مصنوعی روشنیوں کی طاقت اور قوت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس آلے سے معلوم ہوا ہے کہ زمین پر مصنوعی روشنیوں کی شدت میں سالانہ بنیاد پر 2.2 فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: NASA
روشنی اور اقتصادیات
مصنوعی روشنی کے استعمال میں اضافے کو عالمی اقتصادی ترقی کے ساتھ بھی نتھی کیا جاتا ہے۔ یہ مختلف ملکوں کی مجموعی قومی پیداوار کا ایک طرح سے اشاریہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی روشنیوں کا انتہائی زیادہ استعمال حالیہ برسوں میں ابھرتی ہوئی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں دیکھا گیا ہے۔
تصویر: NASA/GSFC/Craig Mayhew & Robert Simmon
حیات کی داخلی گھڑی روشنی سے تبدیل
مصنوعی روشنیوں نے انسانوں اور جانوروں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے پرندے بھی اپنی نیند کے قدرتی طریقے میں تبدیلی لانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی طرح مصنوعی روشنیوں نے پودوں کے اندرونی نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
اسمارٹ لیمپس
یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ کیا شہروں میں ساری رات گلیوں اور سڑکوں کی روشنیوں کو جلانا ضروری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لیڈ روشنیاں زیادہ بجلی استعمال نہیں کرتیں لیکن پھر بھی یہ ضروری ہے کہ رات کو غیر ضروری روشنیاں گُل کر دینا بہتر ہے۔ زیادہ روشنی کی جگہ کم روشنی والی ایمرجنسی لائٹ سے بھی گزارہ کیا جا سکتا ہے۔