آسٹریلیا میں سینکڑوں کمیاب کوآلاز جنگلاتی آگ میں جل کر ہلاک
30 اکتوبر 2019
آسٹریلیا میں لگی جنگلاتی آگ کے باعث سینکڑوں کمیاب کوآلاز کے جل کر ہلاک ہو جانے کا خدشہ ہے۔ ان جانوروں کی تعداد پہلے ہی بہت کم ہے۔ یہ جنگلاتی آگ اب ان کی افزائش نسل کے لیے کلیدی اہمیت کے ایک مقام کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔
اشتہار
کوآلاز کو عرف عام میں 'کوآلا بیئر‘ بھی کہا جاتا ہے اور ان کا تعلق اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے ایسے جانوروں میں ہوتا ہے، جو تھیلی دار ممالیہ یا pouch mammals کہلاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے زیادہ تر تھیلی دار ممالیہ جانور براعظم آسٹریلیا میں ہی پائے جاتے ہیں۔
آسٹریلیا کے جنوب مشرقی ساحلی علاقے کو ان دنوں شدید نوعیت کی خشک سالی کا سامنا ہے۔ اسی خشک سالی کے باعث وہاں کئی مقامات پر جنگلوں اور بہت گھنی جھاڑیوں والے وسیع و عریض علاقوں میں آگ بھی لگی ہوئی ہے۔
350 سے زائد کوآلاز جل کر ہلاک
ایسی ہی ایک جنگلاتی آگ کے نتیجے میں حکام کو خدشہ ہے کہ 350 سے زائد کوآلاز وہاں بے قابو آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ کر زندہ جل گئے۔ مقامی حکام نے بتایا کہ سڈنی سے 400 کلومیٹر (284 میل) شمال کی طرف پورٹ میکوئری کے قریب یہ جنگلاتی آگ ہفتہ 26 اکتوبر کو اچانک آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے لگی تھی۔
پھر یہ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ اس کی وجہ سے اب تک دو ہزار ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات جل کر راکھ ہو چکے ہیں۔ تحفظ ماحول کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق یہ علاقہ جنوب مشرقی آسٹریلیا میں کوآلاز کے رہنے کی کلیدی جگہوں اور ان کی افزائش نسل کے لیے انتہائی سازگار مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اسی خطے میں گزشتہ چار دنوں کے دوران تقریباﹰ پانچ ہزار ایکڑ رقبے پر آگ کے شعلے ہر شے کو جلا کر بھسم کر چکے ہیں۔
آگ 60 فیصد کوآلاز کو نگل گئی
پورٹ میکوئری کے کوآلا ہسپتال نے آج بدھ 30 اکتوبر کو بتایا کہ اس جنگلاتی آگ سے متاثرہ علاقہ آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کا شمالی حصہ ہے اور کوآلاز کو بچانے کی کوششیں کرنے والے کارکنوں کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ اس جنگلاتی آتشزدگی کے نتیجے میں اب تک وہاں 'انتہائی کمیاب مارسُوپیئل‘ کہلانے والے ساڑھے تین سو اور چار سو کے درمیان جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات کوآلاز کے تحفظ کی ایک آسٹریلوی تنظیم کا یہ بیان ہے کہ اس جنگلاتی آگ کی وجہ سے گزشتہ تین روز کے دوران وہاں پائے جانے والے کوآلاز میں سے 60 فیصد تک جل کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس بارے میں پورٹ میکوئری کوآلا ہسپتال کی خاتون صدر سُو ایشٹن نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس خطے میں پائے جانے والے کوآلا جانوروں کی آبادی کی عالمی سطح پر اپنی ہی ایک انتہائی منفرد حیثیت ہے۔ انہوں نے کہا، ''اتنی بڑی تعداد میں کوآلاز کی ہلاکت آسٹریلیا کے لیے ایک قومی المیہ ہے۔‘‘
کوآلاز کے ناپید ہو جانے کا خطرہ کیوں؟
تحفظ فطرت کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی آسٹریلوی شاخ نے 2018ء میں اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں تب تک کُل 20 ہزار سے بھی کم کوآلاز باقی بچے تھے اور ان کے اس آسٹریلوی ریاست میں 2050ء تک ناپید ہو جانے کا شدید خطرہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق اس خطے میں کوآلاز کی آبادی میں تیز رفتار کمی کا سب سے بڑا سبب انسانوں کی وجہ سے قدرتی ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات ہیں۔
نیو ساؤتھ ویلز میں زراعت کے لیے، جو اب کافی حد تک ایک صنعت بن چکی ہے، جنگلاتی رقبے کو صاف کر کے کھیتوں میں بدل دینے کا رجحان بہت زیادہ ہو چکا ہے۔
م م / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
آٹھ جانور جو سن 2019 میں ناپید ہو سکتے ہیں
ان آٹھ جانور کے ناپید ہونے کی بڑی وجہ غیرقانونی شکار یا ان کے قدرتی ماحول کی تباہی خیال کی گئی ہے۔ اگر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Karumba
شمالی سفید گینڈے
گزشتہ برس افریقی ملک سوڈان میں ایک سفید گینڈے کی ہلاکت کو نہایت اہمیت حاصل ہوئی تھی۔ یہ گینڈوں کی اِس نسل کا آخری معلومہ نَر جانور تھا۔ اس طرح کسی حد تک یہ نسل معدوم ہو کر رہ گئی ہے۔ بعض سائنسدان آئی وی ایف ٹیکنالوجی یا مصنوعی طریقے سے اس کی افزائش نسل کی کوشش میں ہیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو یہ نسل اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Karumba
جنوبی چینی ٹائیگر
جنوبی چین میں پایا جانے والا ٹائیگر بھی اپنے معدوم ہونے کے قریب ہے۔ سن 1970 کے بعد جنوبی چینی جنگل میں اس جانور کو نہیں دیکھا گیا۔ مختلف چڑیا گھروں میں ان کی تعداد اسی کے قریب ہے۔ بعض حیوانات کے ماہرین نے اس نسل کو ناپید قرار دے دیا ہے لیکن چین کی تنظیم ’ سیو چینی ٹائیگر‘ کا موقف ہے کہ اس جانور کو بچانے کی کوششیں رنگ لائیں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Joe
آمور چیتا
خیال کیا جاتا ہے کہ اس نسل کے چیتے اس وقت دنیا بھر میں 80 سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اس چیتے کا علاقہ جنوبی چین، شمالی روس اور جزیرہ نما کوریا ہے۔ اس چیتے کے ناپید ہونے کی وجہ غیرقانونی شکار اور جنگلاتی علاقے کی کٹائی خیال کی جاتی ہے۔ یہ چیتے اس وقت دونوں کوریائی ممالک کے غیر عسکری علاقے میں دیکھے گئے ہیں۔ یہ علاقہ جنگلی حیات کی افزائش کا باعثث بن چکا ہے۔
تصویر: AP
چپٹی تھوتھنی والی وہیل مچھلی
سمندری حیات میں چپٹی تھوتھنی والی وہیل مچھلی معدوم ہونے کے قریب خیال کی جاتی ہے۔ مارچ سن 2018 تک اس کی معلوم تعداد پندرہ خیال کی گئی تھی۔ بظاہر اس کا براہ راست شکار نہیں کیا جاتا لیکن ایک اور نایاب مچھلی ٹوٹوابا کے پکڑنے والے جال میں پھنس کر انسانی ہاتھوں تک پہنچتی رہی ہے۔ ان دونوں نایاب ہوتی مچھلیوں کا علاقہ خلیج کیلیفورنیا ہے۔ اس کے غیرقانونی شکار کی تمام کوششیں اب تک ناکامی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WWF/Tom Jefferson
سیاہ گینڈا
ماہرین حیوانات کا خیال ہے کہ سیاہ گینڈے کا مستقبل بھی سفید گینڈے جیسا ہے۔ اس کے تحفظ کی کوششیں بھی رنگ نہیں لا سکی ہیں۔ اس معدوم ہوتے جانور کی مجموعی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ خیال کی جاتی ہے۔ اس سیاہ گینڈے سے تعلق رکھنے والی تین دوسری قسمیں پوری طرح مِٹ چکی ہیں۔ سیاہ گینڈے بھی غیرقانونی شکار کی وجہ سے معدوم ہو رہے ہیں۔ اس کے سینگ کی مانگ عالمی بلیک مارکیٹ میں بہت زیادہ ہے۔
تصویر: Imago/Chromorange
سرخ بھیڑیا
سرخ بھیڑیے کی نسل بھی ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس نسل کے تیس جانور باقی بچے ہیں۔ اس نسل کی افزائش بھورے اور امریکی بھیڑیے کے ملاپ سے ممکن ہوتی ہے۔ امریکی بھیڑیے کو سخت حفاظتی کنٹرول کے باعث معدوم ہونے سے بچا لیا گیا ہے۔ سرخ بھیڑیا ایک شرمیلا جانور ہے اور اس کا علاقہ جنوب مشرقی امریکا اور فلوریڈا سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: Creative Commons
ساؤلا
اس جانور کی دریافت سن 1992 میں ہوئی تھی اور اس کو ایشیائی ’یک سنگھا‘ یا یونی کورن قرار دیا جاتا ہے۔ ریسرچرز نے ویتنام اور لاؤس کے جنگلاتی علاقوں میں صرف چار ساؤلا کی دستیابی کی تصدیق کی ہے۔ اس نسل کو بھی غیر قانونی شکار اور جنگلوں کی کٹائی کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر جنگلوں اور چڑیاگھروں میں صرف ایک سو ساؤلا کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی گوریلا
زمین کی اعلیٰ مخلوق یعنی انسانوں کے قریب ترین بندروں کی نسل مشرقی گوریلا شکاریوں کی کارروائیوں اور جنگلاتی علاقوں کے کٹاؤ کی وجہ سے ناپید ہونے کے قریب ہے۔ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے گوریلا کی تعداد نو سو سے بھی کم ہو چکی ہے جب کہ پہاڑی ڈھلوانی جنگلات میں گوریلا کی ایک ذیلی نسل کے اڑتیس سو جانور باقی رہ گئے ہیں۔ ان کو محفوظ رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ابھی مثبت نتائج سامنے آنا باقی ہیں۔