آسٹریلیا نے افغانستان میں جنگی جرائم کا اعتراف کر لیا
19 نومبر 2020
آسٹریلوی فوج کے ایک اعلی عہدیدار نے تسلیم کیا ہے کہ ملکی فوج افغانستان میں مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ آسٹریلیا نے پہلی بار افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں پر جنگی جرائم جیسے الزامات کو تسلیم کیا ہے۔
اشتہار
آسٹریلوی فوج کے اعلی عہدیدار جنرل آنگس کیمبیل نے جمعرات کو اعتراف کیا کہ اس بات کے کافی پختہ ثبوت و شواہد ہیں کہ افغانستان میں تعینات ان کے فوجیوں نے کم سے کم 39 ایسے افغان شہریوں کو غیر قانونی طور پر ہلاک کیا، جن کا لڑائی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔
اس معاملے میں فوج اندرونی طور پر گزشتہ چار برسوں سے تفتیش کر رہی تھی، جس سے یہ بات سامنے آئی ہے۔ اسی تفتیشی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میں آسٹریلیا کی دفاعی فورسز کی طرف سے افغان عوام کے ساتھ ہونے والی کسی بھی غلطی کے لیے بلا شرط، خلوص کے ساتھ معافی مانگتا ہوں۔''
آسٹریلیوی فوج کے انسپکٹر جنرل افغانستان میں آسٹریلیائی فوج پر جنگی جرائم سے متعلق الزامات کی تفتیش کر رہے تھے۔ آسٹریلوی فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کا تعلق ان کی افغانستان میں سن دو ہزار پانچ سے سن دو ہزار سولہ کے دوران تعیناتی سے ہے۔
مسٹر کیمبل کے مطابق انکوائری میں پایا گیا ہے کہ کچھ فوجی ملٹری کے تعلق سے پیشہ ورانہ اقدار کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اگلا قدم ان فوجیوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی ہو گی جو جنگی جرائم میں مرتکب ہوئے ہیں۔
انکوائری میں کیا پایا گیا ہے؟
اس بات کے پختہ شواہد پائے گئے کہ آسٹریلوی فوج میں اسپیشل فورسز کے 25 فوجی قیدیوں، کسانوں اور ان جیسے دیگر نہتے عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث ہوئے۔
غیر قانونی طور عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے ایسے 23 واقعات کے بھی پختہ شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 39 عام افغان شہری مارے گئے۔ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ 2009 ء میں شروع ہوا لیکن زیادہ تر افراد کو 2012ء اور 2013ء کے درمیان ہلاک کیا گیا۔
ایسے بھی کئی واقعات کا انکشاف ہوا ہے کہ فوجیوں نے پہلی بار کسی کو ہلاک کرنے کا اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو ہی گولی مار دی اور پھر لڑائی میں ہلاک کرنے کے جعلی ثبوت کا انتظام کر لیا۔
انکوائری کے مطابق ہلاکتوں کے ان واقعات میں ایسا کوئی بھی ایک واقعہ ایسا نہیں تھا جو لڑائی کے دوران پیش آیا ہو، یا پھر حالات ایسے رہے ہوں جہاں ان فوجیوں کی نیت غیر واضح، متذبذب رہی ہو یا پھر ایسا غلطی سے ہو گیا ہو۔
جن فوجیوں سے بھی اس بارے میں پوچھ گچھ کی گئی وہ سب میدان جنگ کے اصول و ضوابط یا پھر لڑائی کے آداب و طوار سے اچھی طرح واقف تھے۔ حیرت تو یہ ہے کہ بعض فوجی جو ان حرکتوں میں ملوث رہے ہیں وہ اب بھی آسٹریلیائی فوج میں کام کر رہے ہیں۔
طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی
01:57
اس تفتیشی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس حوالے سے 19 افراد سے قتل جیسے مجرمانہ جرائم میں ملوث ہونے کے لیے مزید تفتیش ہونی چاہیے۔ کیمبل کا کہنا تھا، ''میں نے انسپکٹر جنرل کی تفتیشی رپورٹ کو تسلیم کر لیا ہے اور ان کی جانب سے کارروائی کے لیے جو 143 جامع سفارشات پیش کی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔''
اشتہار
افغان فائلز سے فوجی تفتیش تک
آسٹریلوی ڈیفنس فورسز (اے ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران اس قسم کے متعدد الزامات کی اندرونی طور پر تفتیش ہوتی رہی ہے۔ آسٹریلوی فوجی نے انکشاف کیا تھا کہ اس ضمن میں 55 واقعات میں تحقیقات کی گئیں، جن میں 336 گواہوں سے شواہد یا ثبوت جمع کیے گئے۔
نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملے کے بعد جب امریکا نے 2002ء میں افغانستان پر حملہ کیا تو اتحادی کے طور پر آسٹریلیا نے بھی افغانستان میں اپنے فوجی تعینات کیے تھے۔ افغانستان میں کُل 39000 آسٹریلوی فوجیوں نے خدمات انجام دیں جن میں سے 41 مارے گئے تھے۔
افغانستان: کب کیا ہوا ؟
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ
گیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آپریشن اینڈیورنگ فریڈم
ان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلی بون کانفرنس
طالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Images
جرمن افواج کی روانگی
بائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلے فوجی کی ہلاکت
چھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا آئین
جنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
برلن کانفرنس
اکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
لندن کانفرنس
اکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
قندوز کا فضائی حملہ
چار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن صدر کا استعفیٰ
اکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کابل کا سربراہی اجلاس
انیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمانی انتخابات
اٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpa
اسامہ بن لادن کی ہلاکت
دو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Images
دوسری بون کانفرنس
جنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Images
ذمہ داریوں کی منتقلی
اٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیٹو جنگی مشن کا اختتام
افغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔
تصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images
16 تصاویر1 | 16
جنگی جرائم سے متعلق آسٹریلوی فوج کی خفیہ دستاویزات ''افغان فائلز'' کسی طرح لیک ہو گئی تھیں، جنہیں بعد میں آسٹریلیا کے سرکاری نشریاتی ادارے اے بی سی نے نشر کر دیا تھا۔ اسی سے اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ آسٹریلوی فوج نے افغانستان میں نہتے عام شہریوں اور بچوں کو ہلاک کیا۔
اس پر پہلے آسٹریلیا کی پولیس نے ان صحافیوں کے خلاف ہی مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کی جنہوں نے یہ خفیہ دستاویزات حاصل کی تھیں اور پھر بعد میں یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
اس سے قبل آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے اپنی افواج کا مجموعی طور پر دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں فوجی اہلکار مطلوبہ ''توقعات اور معیار پر پورے نہیں اترے"۔ اس موقع پر انہوں نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک اسپیشل پراسیکیوٹر نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
آسٹریلیا میں ایسے فوجیوں پر مقدمہ چلا کر سزا دینے کی حکومت کی کوشش کی ایک وجہ بین الاقوامی جنگی جرائم سے بھی بچنا ہے۔ آسٹریلیا نے 2013 ء میں افغانستان میں تعینات اپنے بیشتر فوجیوں کو واپس بلا لیا تھا۔
ص ز / ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)
افغانستان میں سب سے بڑا غیر ایٹمی بم گرنے کے مناظر