آسٹریلیا کا حزب اللہ کو ' دہشت گرد تنظیم' قرار دینے کا عندیہ
24 نومبر 2021
آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ ملک کے لیے'' حقیقی اور باوثوق اور معتبر‘‘ خطرہ بن گیا ہے۔ امریکا، اسرائیل اور جرمنی ایرانی حمایت یافتہ اس گروپ پر پہلے ہی پابندی عائد کرچکے ہیں۔
اشتہار
آسٹریلیا نے بدھ کے روز کہا کہ وہ حزب اللہ کو '' دہشت گرد تنظیموں ‘‘ کی فہرست میں شامل کرنے جارہا ہے۔ آسٹریلیا اس طرح ان ملکوں کی صف میں شامل ہوجائے گا جنہوں نے اس ایرانی حمایت یافتہ شیعہ عسکریتی گروپ پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔
متعدد دیگر مغربی حکومتیں حزب اللہ کو دہشت گردتنظیم قرار دیتی ہیں۔ تاہم بعض حکومتیں اس کے سیاسی دھڑے پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے لبنان کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ حزب اللہ کا لبنان پر کافی اثر و رسوخ ہے۔
آسٹریلیا کی طرف سے حزب اللہ پر پابندی عائد کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس تنظیم کی رکنیت حاصل کرنا یا اسے مالی امداد فراہم کرنا اس ملک میں قانوناً جرم ہوگا۔ آسٹریلیا میں لبنانی کمیونٹی بڑی تعداد میں آباد ہے۔
آسٹریلیا کی وزیر داخلہ کارین اینڈریوز نے ایک بیان میں کہا،''حکومت تشدد کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بے قصور افراد کے قتل کو، خواہ وہ مذہبی یا سیاسی کسی بھی وجہ سے کیا گیا ہو، کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے دہشت گردانہ حملوں کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کو امداد فراہم کرتا ہے۔ '' یہ آسٹریلیا کے لیے ایک حقیقی اور باوثوق خطرہ ہے۔‘‘
آسٹریلیا نے حزب اللہ کی مسلح یونٹوں پر پہلے سے ہی عائد پابندیوں کی مدت میں بھی توسیع کردی ہے۔ یہ پابندیاں سن 2003 سے نافذ ہیں۔
حزب اللہ کیا ہے؟
ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند تحریک حزب اللہ کا قیام لبنان کی خانہ جنگی کے دوران سن 1982میں عمل میں آیا تھا۔ اس گروپ نے سن 2006 میں بھی اسرائیل کے ساتھ ایک خونریز جنگ لڑی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ایران اس گروپ کو مالی امداد اور عسکری تربیت فراہم کرتا ہے۔ فی الوقت لبنان کے ایک بڑے حصے پر اس گروپ کا کنٹرول ہے۔
امریکا اور اسرائیل نے ایک طویل عرصے سے حزب اللہ پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ جرمنی نے بھی گزشہ برس مئی میں اس پر پابندی عائد کردی تھی۔ جس کے بعد سے جرمنی کی سرزمین پر اس کی تمام سرگرمیاں بند کردی گئیں۔
تاہم جرمنی کی داخلی انٹلیجنس ایجنسی کا خیال ہے کہ ملک میں حزب اللہ کے تقریباً ایک ہزار پچاس اراکین اور حامی اب بھی سرگرم ہیں۔
ج ا/ ک م (اے ایف پی)
حزب اللہ، ایرانی پشت پناہی رکھنے والی لبنانی تنظیم
لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری گروپ ملک میں نہایت طاقتور تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم اس کی طاقت، لبنان سمیت اس خطے میں تناؤ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Taher
حزب اللہ کا قیام
حزب اللہ یا ’ خدا کی جماعت‘ کی بنیاد مذہبی رہنماؤں کی جانب سے جنوبی لبنان پر اسرائیل کے 1982ء میں کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں ڈالی گئی تھی۔ اس جماعت کے دو گروپ ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسرا عسکری۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسرائیل کے خلاف قومی حمایت
1980ء کی دہائی میں حزب اللہ بطور شیعہ ملیشیا کے ابھر کر سامنے آئی جس نے لبنان کی خانہ جنگی میں بڑا کردار ادا کیا۔ سن 2000ء میں اسرائیلی فوج کے جنوبی لبنان چھوڑنے کے پیچھے حزب اللہ کی ہی گوریلا کارروائیاں تھیں۔ پھر اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006ء میں جنگ ہوئی اور اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کا دفاع کرنے کے سبب حزب اللہ کے لیے مذہب ومسلک سے مبراء ہو کر ملکی حمایت میں اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Zaatari
ایران کی پشت پناہی
اپنے معرض وجود میں آنے کے بعد حزب اللہ کو ایران اور شام سے عسکری، معاشی اور سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اس جماعت کا عسکری ونگ، ملکی ا فوج سے زیادہ طاقتور اور خطے میں میں اثر ورسوخ کا حامل ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
سیاسی آلہ کار
لبنان میں 1975ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اختتام پر اس جماعت نے اپنی توجہ سیاست کی جانب مبذول کر لی۔ حزب اللہ لبنان کی اکثریتی شیعہ آبادی کی نمائندگی کے علاوہ ملک میں موجود دیگر فرقوں مثلاﹰ مسیحیوں کی اتحادی بھی ہے۔ حزب اللہ میں یہ سیاسی تبدیلی تنظیم کے موجودہ سربراہ حسن نصر اللہ کی سربراہی میں ہوئی جنہوں نے 1992ء سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عسکری بازو
خانہ جنگی کے بعد لبنان کی دیگر جماعتوں کے بر عکس حزب اللہ نے اپنی جماعت کے عسکری بازو کو تحلیل نہیں کیا۔ اس پر ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے اعتراض بھی کیا تاہم حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ عسکری بازو کی موجودگی اسرائیل اور دیگر بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
دہشت گرد گروپ؟
چند ممالک مثلاﹰ امریکا، اسرائیل، کینیڈا اور عرب لیگ کی جانب سے اس جماعت کو دہشت گرد تنظیم گردانا جاتا ہے۔ تاہم برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی یونین اس کی قانونی سیاسی سرگرمیوں اور عسکری بازو کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/I. Press
شامی خانہ جنگی میں موجودگی
حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی شامی خانہ جنگی میں شمولیت نے نہ صرف صدر بشار الاسد کو محفوظ کیا بلکہ شامی افواج کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل کے راستے محفوظ کیے اور لبنان کے ارد گرد ایسا محفوظ علاقہ تشکیل دیا ہے جو ان سنی عسکری جماعتوں کو شام سے دور رکھنے کا سبب ہے، جن سے شام کو خطرہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Syrian Central Military Media
فرقہ بندی
لبنان ایک طویل عرصے سے خطے میں خصوصی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین طاقت کی جنگ میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سیاسی اور عسکری غلبے اور شام کی جنگ میں شمولیت کے باعث لبنان سمیت خطے میں فرقوں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔