جنوبی آسٹریلیا میں کوڑے دان کے ایک بڑے کنٹینر میں تین بچے سو رہے تھے اور جب صبح کچرا اٹھانے والے ٹرک نے اس کو خالی کیا تو ان میں سے ایک بچے کی جان چلی گئی۔
اشتہار
آسٹریلیا کی جنوبی ریاست میں شہر پورٹ لنکن کو گیارہ مئی منگل کے روز اس وقت ایک گہرا صدمہ پہنچا جب کوڑا جمع کرنے والے بڑے کنٹینر میں سونے والے ایک 13 سالہ لڑکے کی حادثاتی طور پر موت کا پتہ چلا۔ ڈاؤن ٹاؤن میں ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے پاس یہ واقعہ پیش آیا۔
یہ بچہ اور اس کے دو دیگر ساتھی ریسٹورنٹ کے پاس رکھے ایک بڑے کوڑے دان یا کچرے کے بڑے کنٹینر میں سو رہے تھے۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا تھی تاہم جنوبی آسٹریلوی ریاست کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے بچ جانے والے دو دیگر بچے شدید ذہنی صدمے میں مبتلا ہیں۔
ہوا یوں کہ کچرا اٹھانے والے ٹرک نے علی الصبح جب اس کوڑے دان کو اٹھا کر کچرا خالی کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک بارہ برس کے بچے نے اس پر ہاتھ مار مار کر ڈرائیور کو آگاہ کرنے کی بھی کوشش تاہم تب تک ڈرائیور کنٹینر کو اٹھا چکا تھا اور کوڑا خالی کر کے ٹرک میں ڈال دیا۔
گریٹ بیریئر ریف کے سبز کچھووں کی بقا کو شدید خطرات لاحق
گرم ہوتے ہوئے ماحول کی وجہ سے آسٹریلیا کے علاقے گریٹ بیریئر ریف میں پائے جانے والے سبز نسل کے سمندری کچھووں کے ہاں صرف مادہ کچھوے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس طرح کچھووں کی اس نسل کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
تصویر: Imago/Imagebroker/N. Probst
صرف مادہ ہی باقی بچیں گی؟
دنیا بھر میں سبز سمندری کچھوے گریٹ بیریئر ریف میں ہی سب سے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ محقیقن نے حال یہ پریشان کن انکشاف کیا ہے کہ اس علاقے میں اب صرف مادہ کچھوے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس پورے علاقے میں دیے جانے والے انڈوں میں سے صرف ایک فیصد سے نر بچے نکل رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس نسل کے خاتمے کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Prisma/R. Mohammed
نر کچھووں کو گرمی برداشت نہیں
کچھوے جب انڈے دیتے ہیں تو اس وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ اس سے نکلنے والا بچہ نر ہو گا یا مادہ ۔ جنس کا تعین اس علاقے کا درجہ حرارت کرتا ہے، جہاں پر یہ انڈے دیے جاتے ہیں۔ ریت جس قدر گرم ہو گی مادہ کچھوا پیدا ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اگر درجہ حرارت 29.9 ڈگری سینٹی گریٹ یا اس سے تجاوز کرے گا تو نر پیدا ہی نہیں گا۔
تصویر: Imago/Nature Picture Library/Zankl
نر اور مادہ میں فرق مشکل
ابتدائی مراحل میں کچھوے کی جنس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اسی وقت واضح ہوتا ہے جب کچھوے مکمل طور پر بڑے ہو جاتے ہیں اور اس عمل میں بیس سال لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مادہ کچھووں میں ہونے والے اس ہوش ربا اضافے کے بارے میں فوری علم نہیں ہو سکا۔
تصویر: Imago/imagebroker
پریشان کن اعداد و شمار
امریکا اور آسٹریلیا کے محققین نے سبز سمندری کچھووں کے جنس کے بارے میں جاننے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا ہے۔ اس طرح کچھوے کے بچوں کے ڈی این اے اور خون ٹیسٹ کرتے ہوئے جنس معلوم کی جائے گی۔ تاہم انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ آج کل گریٹ بیریئر ریف میں پائے جانے والے نوے فیصد کچھوے مادہ ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Kolben
شاذ و نادر جنسی ملاپ
نر کچھووں کی تعداد میں کمی صرف سبز سمندری کچھووں کا ہی مسئلہ نہیں۔ عام طور پر بھی کچھوے پندرہ سال کی عمر میں جنسی ملاپ کے قابل ہوتے ہیں اور یہ ہر تین سال میں ایک مرتبہ جنسی عمل سے گزرتے ہیں۔ ارتقائی حوالے سے بات کی جائے تو مادہ کچھووں کی تعداد میں معمولی سا اضافہ غیر معمولی بات نہیں تاہم نر کے نہ ہونے سے کچھوے ناپید ہو جائیں گے۔
تصویر: Imago/StockTrek Images
ایک وقت میں دو سو بچے
مادہ کچھوے انڈے دینے کے لیے کئی مرتبہ ساحلوں پر آتی ہیں۔ بحرالکاہل پر ’رینے آئی لینڈ بیچ‘ سبز سمندری کچھووں کی افزائش کے اعتبار سے سب سے بڑا علاقہ ہے۔ یہاں پر انڈوں کے موسم میں اٹھارہ ہزار تک کچھوے موجود ہوتے ہیں۔ سورج کی مناسب گرمی اور ریت میں دیر تک دبے رہنے کے بعد انڈے سے بچے نکل کر پانی کا رخ کرتے ہیں۔ پھر یہ اسی وقت ساحل پر آتے ہیں، جب انہیں انڈے دینا ہوتے ہیں۔
تصویر: Imago/Zuma Press
کم ہوتے ہوئے نر کچھوے
محققین کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں مادہ کچھووں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں نے ہوائی کے ساحلوں اور مغربی بحرالکاہل میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبز سمندری کچھووں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ ابتداء میں ہی جنس کے تعین کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے یہاں بھی حیران کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
خطرنک حدت
آسٹریلوی محققین کا مرتب کردہ یہ جائزہ دیگر جانوروں کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں۔ چھپکلیوں اور دیگر رینگنے والے جانوروں کے ہاں بھی درجہ حرارت جنس کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ الیگیٹرز کے ہاں معاملہ بالکل مختلف ہے، جتنی گرمی ہو گی انڈوں سے اتنے ہی نر بچے نکلیں گے۔
تصویر: Imago/OceanPhoto
8 تصاویر1 | 8
متاثرہ تیرہ سالہ بچے کو شدید چوٹیں آئیں اور اسے فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کی بھی کوشش کی گئی تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔
اس حادثے سے ٹرک ڈرائیور کو بھی شدید ذہنی صدمہ پہنچا ہے جو اس بات سے قطعی واقف نہیں تھا کہ اس کوڑے دان میں بچے سوئے ہوں گے۔
مقامی پولیس سربراہ پال بار نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ یہ اب بھی ایک راز ہے کہ آخر تینوں مقامی لڑکوں کو اس کوڑے دان میں کیوں سونا پڑا اور اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔
پولیس افسر کا کہنا تھا، ''میرے خیال سے یہ کہنا درست ہوگا کہ لڑکوں کو کہیں نہ کہیں تو قیام کرنا ہی تھا۔''
شہر کے میئر براڈ فیلہرٹی نے لڑکے کی موت پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پوری برادری سکتے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''پورٹ لنکن کے پاس بہت ہی مضبوط کمیونٹی ہے جو متاثرین کے لواحقین کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔''
جنوبی آسٹریلیا میں محکمہ صحت اور سیفٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس کے حکام نے جائے حادثہ کا دورہ کیا ہے اور متاثرہ خاندان کے ساتھ تعزیت بھی کی ہے۔ یہ جان لیوا حادثہ شہر کے ایک میکڈونلڈ ریستوراں کے ڈرائیو تھرو کے پاس پیش آیا۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے)
سن 2019ء: جنگلات کی آگ کا سال
ختم ہونے والے سال سن 2019 کے دوران دنیا کے کئی ممالک کے جنگلات میں آگ بھڑکی۔ اس بھڑکنے والی آگ نے شدت اختیار کرتے ہوئے وسیع جنگلاتی رقبے کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ ایک نظر ایسے بدترین واقعات پر
تصویر: Reuters/S. N. Bikes
زمین کے پھیپھڑوں میں لگنے والی آگ
برازیل میں دنیا کے سب سے وسیع رقبے پر پھیلے بارانی جنگلات ہیں۔ ان میں سن 2019 کے دوران لگنے والی آگ مختلف علاقوں میں کئی ہفتوں تک جاری رہی۔ برازیل کے بارانی جنگلات میں آگ لگنے کے کئی واقعات رونما ہوئے اور اگست میں لگنے والی آگ کو انتہائی شدید قرار دیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جنگلوں میں رہنے والے کسانوں کی لاپرواہیوں سے زیادہ تر آگ لگنے واقعات رونما ہوئے۔
تصویر: REUTERS
جنگلاتی کثیرالجہتی بھی آگ کی لپیٹ میں
برازیل کے صرف بارانی جنگلاتی علاقوں میں آگ نہیں لگی بلکہ جنوب میں واقع ٹراپیکل سوانا جنگلات کو بھی آگ کا سامنا کرنا پڑا۔ برازیلی علاقے سیراڈو کے ٹراپیکل جنگلات اپنے تنوع کی وجہ سے خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان میں کئی نایاب جنگلاتی حیات پائی جاتی ہیں۔ سن 2019 میں لگنے والی آگ سے اس جنلگلاتی علاقے کا وسیع رقبہ خاکستر ہو گیا۔ خاص طور پر سویا زرعی رقبے کو بہت نقصان پہنچا۔
تصویر: DW/J. Velozo
ارونگ اوتان بندروں کے گھر بھی جل گئے
انڈونیشی علاقے سماٹرا اور بورنیو کے جنگلوں میں لگنے والی آگ نے چالیس ہزار ایکڑ رقبے کو جلا ڈالا۔ اس آگ نے معدوم ہوتی بندروں کی نسل ارونگ اوتان کے گھروں کے علاقے کو بھی راکھ کر دیا۔ اس نسل کے کئی بندر آگ کی لپیٹ میں آ کر ہلاک بھی ہوئے۔ آگ نے ان بندروں کے نشو و نما کے قدرتی ماحول کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس آگ پر بڑی مشکل سے قابو پایا گیا۔
تصویر: REUTERS
مرطوب گیلی زمینیں آگ سے سوکھ کر رہ گئیں
برازیل میں مرطوب گیلی زمینوں کا حامل سب سے بڑا رقبہ پایا جاتا ہے۔ اس علاقے کا نام پانٹانال ہے۔ اس کے جنگلاتی رقبے پر لگنے والی آگ نے نم زدہ زمینوں کو خشک کر دیا اور قدرتی ماحول کو بڑی تباہی سے بھی دوچار کیا۔ برازیلی علاقے سے یہ آگ بولیویا کے ویٹ لینڈز میں داخل ہوئی اور پیراگوئے کے نم زدہ علاقوں کی ہریالی کو بھی بھسم کر ڈالا۔ بولیویا میں بارہ لاکھ ہیکٹر مرطوب گیلی زمین والا علاقہ آگ سے متاثر ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Raldes
کیلیفورنیا کی جنگلاتی جھاڑیوں کی آگ
سن 2019 میں امریکی ریاست کی جنگلاتی آگ نے ایک وسیع رقبے کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ اس آگ کی وجہ سے جنگلات میں قائم پرانے بنیادی انتظامی ڈھانچے کا تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ آگ کے پھیلاؤ کی وجہ خشک اور گرم موسم کے ساتھ ساتھ تیز ہوا کا چلنا بھی بنا۔ آگ کی وجہ سے بے شمار مکانات بھی جل کر رہ گئے۔ ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونا پڑا۔ دس لاکھ افراد کو بغیر بجلی کے کئی دن زندگی بسر کرنا پڑی۔
تصویر: Imago Images/ZUMA Press/H. Gutknecht
قطب شمالی میں بھی آگ بھڑک اٹھی
سن 2019 کے دوران قطب شمالی میں شمار کیے جانے والے مختلف علاقوں میں بھی آگ لگنے کے واقعات نے ماحول دوستوں کو پریشان کیا۔ سائبیریا میں تین مہینوں کے درمیان مختلف مواقع پر لگنے والی آگ نے چالیس لاکھ ہیکٹرز کے جنگلات جلا ڈالے اور دھواں یورپی یونین سمیت سارے علاقے پر پھیل گیا۔ آگ بجھانے کے لیے سائبیریا میں روسی فوج کو تعینات کرنا پڑا۔ گرین لینڈ اور کینیڈا کے قطب شمالی کے علاقے بھی آگ سے محفوظ نہ رہے۔
تصویر: Imago Images/ITAR-TASS
جنگلاتی آگ نے کوالا بھی ہلاک کر دیے
آسٹریلیا کی جنگلاتی آگ اب ایک بحران کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ آگ نے لاکھوں ایکڑ رقبے کو جلا ڈالا ہے۔ چار انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ ایک ہزار کے قریب کوالا ریچھ بھی جل مرے ہیں۔ کوالا ریچھ کو معدوم ہونے والی نسل قرار دیا جاتا ہے۔ سن 2019 کی آگ کو انتہائی شدید قرار دیا گیا ہے۔ اس کے دھوئیں نے سڈنی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ حکومت نے اوپن ڈور کھیلوں کی سرگرمیوں کو روک بھی دیا تھا۔