کینبرا حکومت ’گریٹ بیریئر ریف‘ کو خطرے سے دوچار عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرنے کے منصوبے کی مخالفت کر رہی ہے۔ گریٹ بیریئر ریف کو1981ء سے یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔
اشتہار
آسٹریلیا یونیسکو کے خطرے سے دوچار مقامات کی فہرست میں'گریٹ بیریئر ریف‘ یا مونگے کی چٹانوں کو شامل کرنے کے اقوام متحدہ کے منصوبوں کے خلاف لابنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحل پر واقع گریٹ بیریئر ریف سن1981 سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ لیکن اگر اقوام متحدہ اس چٹان کو خطرے سے دوچار قرار دینے کا فیصلہ کرتا ہے، تو یہ آسٹریلوی حکومت کے لیے نوٹس بھی جاری کرے گا کہ اس جگہ کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست سے مکمل طور پر نکالا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا کی وزیر ماحولیات تانیا پیبرسیک نے کہا،''گریٹ بیریئر ریف کو اس طرح سے علیحدہ کر کے باہر نکال دینے کی ضرورت نہیں ہے اور ان کی حکومت اس چٹانوں کو خطرے سے دوچار فہرست میں شامل کرنے کے خلاف لابنگ کرے گی۔‘‘بلوچستان کی ساحلی پٹی پر مرجان کی چٹانیں
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) میں ایلینور کارٹر اور یونیسکو کے نمائندے ہنس تھلسٹرپ نے کہا کہآسٹریلیاکی کوششوں کے باوجود یہ چٹانیں ''موسمیاتی تبدیلی کے عوامل سے نمایاں طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ ‘‘ انہوں نے گریٹ بیریئر ریف کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا، ''موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نکلنے کے لیے اس مقام کی صلاحیت کو نظر انداز کیا گیا ہے۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ آسٹریلیا کے پاس موسمیاتی تبدیلی کے واضح اہداف کا فقدان ہے اور اس ملک نے جن اقدامات کا وعدہ کیا تھا ان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا گیا، خاص طور پر ماہی گیری اور پانی کے معیار سے متعلق وعدے پورے نہیں کیے گئے۔
آسٹریلیا نے گریٹ بیریئر ریف کی حفاظت کے لیے کیا کیا ہے؟
جنوری میں آسٹریلوی حکومت نے ان چٹانوں کے تحفظ کے لیے ایک ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جبآسٹریلیانے یونیسکو کی اس فہرست کو کم کیے جانے کے خطرے کو نظر انداز کیا۔
آسٹریلوی حکام کے مطابق مئی میں طویل گرمی کی لہر کے بعد ریف کے 91 فیصد حصے کو بلیچنگ یا رنگ اُڑنے سے نقصان پہنچا تھا۔
آسٹریلیا نے رواں سال مرکز سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنی والی حکومت کے وزیر اعظم انتھونی البانی نے تحفظ ماحول کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کو مزید موثر بنانے کا وعدہ کیا۔
آسٹریلوی حکومت مبینہ طور پر ''گریٹ بیریئر ریف‘‘ یا مونگے کی ان چٹانوں کو خطرے سے دوچار مقامات کی فہرست میں شامل نہ کرنے کے لیے یونیسکو کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔
گریٹ بیریئر ریف کے سبز کچھووں کی بقا کو شدید خطرات لاحق
گرم ہوتے ہوئے ماحول کی وجہ سے آسٹریلیا کے علاقے گریٹ بیریئر ریف میں پائے جانے والے سبز نسل کے سمندری کچھووں کے ہاں صرف مادہ کچھوے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس طرح کچھووں کی اس نسل کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
تصویر: Imago/Imagebroker/N. Probst
صرف مادہ ہی باقی بچیں گی؟
دنیا بھر میں سبز سمندری کچھوے گریٹ بیریئر ریف میں ہی سب سے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ محقیقن نے حال یہ پریشان کن انکشاف کیا ہے کہ اس علاقے میں اب صرف مادہ کچھوے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس پورے علاقے میں دیے جانے والے انڈوں میں سے صرف ایک فیصد سے نر بچے نکل رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس نسل کے خاتمے کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Prisma/R. Mohammed
نر کچھووں کو گرمی برداشت نہیں
کچھوے جب انڈے دیتے ہیں تو اس وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ اس سے نکلنے والا بچہ نر ہو گا یا مادہ ۔ جنس کا تعین اس علاقے کا درجہ حرارت کرتا ہے، جہاں پر یہ انڈے دیے جاتے ہیں۔ ریت جس قدر گرم ہو گی مادہ کچھوا پیدا ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اگر درجہ حرارت 29.9 ڈگری سینٹی گریٹ یا اس سے تجاوز کرے گا تو نر پیدا ہی نہیں گا۔
تصویر: Imago/Nature Picture Library/Zankl
نر اور مادہ میں فرق مشکل
ابتدائی مراحل میں کچھوے کی جنس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اسی وقت واضح ہوتا ہے جب کچھوے مکمل طور پر بڑے ہو جاتے ہیں اور اس عمل میں بیس سال لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مادہ کچھووں میں ہونے والے اس ہوش ربا اضافے کے بارے میں فوری علم نہیں ہو سکا۔
تصویر: Imago/imagebroker
پریشان کن اعداد و شمار
امریکا اور آسٹریلیا کے محققین نے سبز سمندری کچھووں کے جنس کے بارے میں جاننے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا ہے۔ اس طرح کچھوے کے بچوں کے ڈی این اے اور خون ٹیسٹ کرتے ہوئے جنس معلوم کی جائے گی۔ تاہم انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ آج کل گریٹ بیریئر ریف میں پائے جانے والے نوے فیصد کچھوے مادہ ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Kolben
شاذ و نادر جنسی ملاپ
نر کچھووں کی تعداد میں کمی صرف سبز سمندری کچھووں کا ہی مسئلہ نہیں۔ عام طور پر بھی کچھوے پندرہ سال کی عمر میں جنسی ملاپ کے قابل ہوتے ہیں اور یہ ہر تین سال میں ایک مرتبہ جنسی عمل سے گزرتے ہیں۔ ارتقائی حوالے سے بات کی جائے تو مادہ کچھووں کی تعداد میں معمولی سا اضافہ غیر معمولی بات نہیں تاہم نر کے نہ ہونے سے کچھوے ناپید ہو جائیں گے۔
تصویر: Imago/StockTrek Images
ایک وقت میں دو سو بچے
مادہ کچھوے انڈے دینے کے لیے کئی مرتبہ ساحلوں پر آتی ہیں۔ بحرالکاہل پر ’رینے آئی لینڈ بیچ‘ سبز سمندری کچھووں کی افزائش کے اعتبار سے سب سے بڑا علاقہ ہے۔ یہاں پر انڈوں کے موسم میں اٹھارہ ہزار تک کچھوے موجود ہوتے ہیں۔ سورج کی مناسب گرمی اور ریت میں دیر تک دبے رہنے کے بعد انڈے سے بچے نکل کر پانی کا رخ کرتے ہیں۔ پھر یہ اسی وقت ساحل پر آتے ہیں، جب انہیں انڈے دینا ہوتے ہیں۔
تصویر: Imago/Zuma Press
کم ہوتے ہوئے نر کچھوے
محققین کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں مادہ کچھووں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں نے ہوائی کے ساحلوں اور مغربی بحرالکاہل میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبز سمندری کچھووں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ ابتداء میں ہی جنس کے تعین کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے یہاں بھی حیران کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
خطرنک حدت
آسٹریلوی محققین کا مرتب کردہ یہ جائزہ دیگر جانوروں کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں۔ چھپکلیوں اور دیگر رینگنے والے جانوروں کے ہاں بھی درجہ حرارت جنس کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ الیگیٹرز کے ہاں معاملہ بالکل مختلف ہے، جتنی گرمی ہو گی انڈوں سے اتنے ہی نر بچے نکلیں گے۔