آسٹریا کے نئے نائب چانسلر اپنی جوانی کے دور میں نئے نازیوں کی سوچ رکھتے تھے۔ انہیں نئے نازیوں کے ایک اجتماع میں شرکت کے موقع پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ تاہم اب وہ اپنے ماضی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
اشتہار
ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کو آسٹریا کا چانسلر بننے کی اپنی خواہش کو اب وقتی طور پر پس پشت ڈالنا پڑ گیا ہے۔ عوامیت پسند فریڈم پارٹی (ایف پی او) کے سربراہ اشٹراخے نئی حکومت میں تاہم نائب چانسلر کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ انہوں نے فیس بک پر بہت ہی فخریہ انداز میں لکھا، ’’میں قدامت پسند پیپلز پارٹی (او وی پی) کے ساتھ حکومت سازی کے مذاکرات میں ایف او پی کے لیے پچاس فیصد عہدے حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہوں۔‘‘
آسٹرین پیپلز پارٹی کی جانب سے اس مذاکراتی عمل کی سربراہی موجودہ وزیر خارجہ اور مستقبل کے وفاقی چانسلر سباستیان کُرس کر رہے تھے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس پیش رفت کے بعد آسٹریا میں مہاجرین سے متعلق سخت قوانین بنائے جائیں گے اور ویانا میں حکومتی فیصلوں پر یورپی یونین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
48 سالہ اشٹراخے اپنی نوجوانی کے دور میں انتہائی دائیں بازو کے حلقوں کے ساتھ رہے تھے۔ تاہم اب وہ اپنے سابقہ رابطوں کو ’ماضی کی غلطیوں‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیشنل سوشلسٹ یا نازی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبے میں ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اسی طرح تقریباً تیس سال قبل اشٹراخے کو جرمنی میں نیو نازیوں کے ایک اجتماع میں شرکت کے موقع پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ وہ آج کل ان باتوں کو یاد نہیں کرنا چاہتے۔
ہائنز کرسٹیان اشٹراخے اب کہتے ہیں کہ نازی سوچ کی تشہیر اور سامیت دشمنی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تاہم آج بھی وہ دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی انہوں نے مہاجرین کے موضوع پر خاص توجہ دی۔ اشٹراخے نے پندرہ اکتوبر کو قبل از وقت پارلیمانی انتخات کے موقع پر کہا تھا کہ ان کا اولین منصوبہ ’بڑے پیمانے پر ہونے والی یہ بے ہنگم نقل مکانی‘ روکنا ہو گا۔
ان انتخابات میں ایف پی او نے 26 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، جو 1999ء کے انتخابات میں اس پارٹی کو ملنے والے ریکارڈ ووٹوں یعنی26.8 فیصد کے تقریباً برابر ہے۔ اُس وقت اس پارٹی کی قیادت یورگ ہائیڈر کے ہاتھوں میں تھی۔
ایلان سے اومران تک مہاجرت کا سفر، مصائب ختم نہیں ہوئے
سن دو ہزار پندرہ اور سن دو ہزار سولہ میں یورپ میں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوئیں۔ تاہم مہاجرین کے مصائب کا مکمل احاطہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
یونانی جزائر میں پڑاؤ
گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد جنگوں اور تنازعات کے باعث اپنے ممالک کو چھوڑ کر ترکی کے ذریعے یونان پہنچے۔ یونانی جزائر لیبسوس، شیوس اور ساموس میں اب بھی دس ہزار کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اس سال جنوری سے مئی تک چھ ہزار نئے پناہ گزین بھی پہنچے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
یورپ کی جانب پیدل سفر
سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے ترکی اور یونان کے بعد ’بلقان روٹ‘ پر پیدل سفر کرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ مہاجرین کا یہ بہاؤ اُس وقت تھما، جب اس راستے کو باقاعدہ اور مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Mitchell
ایلان کُردی
اس تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ستمبر دو ہزار پندرہ میں تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل پر ملی۔ یہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مہاجرین کے بحران کی علامت بن گئی، جس کے بعد یورپ کے لیے اس بحران کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
بلقان روٹ کی بندش
ہزاروں افراد نے یہ جاننے کے بعد کہ اب بلقان روٹ زیادہ عرصے تک کھلا نہیں رہے گا، کروشیا میں پہلے سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. J. Mitchell
ہنگری کی خاتون صحافی
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ سرحد عبور کرنے والے ایک مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
مہاجرین پر تشدد
مارچ سن دو ہزار سولہ میں بلقان روٹ کی بندش کے بعد بلقان کی ریاستوں کے سرحدی راستوں پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران مہاجرین پر ظالمانہ تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
پانچ سالہ شامی بچے اومران کی یہ تصویر جب سن دو ہزار سولہ میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر میں لوگ صدمے کی کیفیت میں آ گئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس تصویر کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aleppo Media Center
نیا لیکن انجان گھر
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر کھینچی گئی یہ تصویر ایک شامی مہاجر کی ہے، جو برستی بارش میں اپنی بیٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، اس امید پر کہ اُس کے خاندان کو یورپ میں اچھا مستقبل ملے گا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
مدد کی امید
جرمنی تارکین وطن کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل پناہ گزینوں کے لیے آئیکون کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اب بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرت کے حوالے سے قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
بحیرہ روم میں اموات
جنگوں، تنازعات اور غربت سے راہ فرار اختیار کر کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن خطرات سے پُر سمندری راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ رواں برس اب تک اٹھارہ سو، جب کہ سن دو ہزار سولہ میں پانچ ہزار مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر بحیرہ روم کے سفر کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔