آسیہ بی بی پاکستان چھوڑ کر جرمنی منتقل ہونا چاہتی ہیں
11 نومبر 2018اتوار کے روز جرمن اخبار بلڈ ام زونٹاگ میں شائع ہونے والے ایک بیان میں آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے کہا کہ آسیہ بی بی اپنے اہل خانہ کے ساتھ جرمنی منتقل ہونا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’آسیہ بی بی کو خوشی ہو گی، اگر وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ جرمنی آ جائیں۔‘‘
آسیہ بی بی کو بدھ کی شب انتہائی سخت سکیورٹی میں پاکستانی صوبے پنجاب کے شہر ملتان کی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ اس سے قبل پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں آسیہ بی بی کو ماتحت عدالتوں کی جانب سے دی گئی موت کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی۔
آسیہ بی بی کی کہانی انہی کی زبانی
آسیہ بی بی نے پاکستان نہیں چھوڑا، پاکستانی وزارت خارجہ
آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے جرم میں ایک ضلعی عدالت نے سن 2010ء میں سزائے موت دی تھی، جسے ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ آسیہ بی بی پر الزام تھا کہ اپنے گاؤں میں چند مسلمان خواتین کے ساتھ لڑائی میں انہوں نے پیغمبر اسلام سے متعلق ’نازیبا الفاظ‘ کا استعمال کیا تھا۔
31 اکتوبر کو ایک فیصلے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے آسیہ بی بی کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان بھر میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جو تین روز تک جاری رہا۔
مذہبی شدت پسند تنظیم تحریک لبیک پاکستان نے بعد میں حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اپنا احتجاج ختم کر دیا تھا۔ اس معاہدے میں ایک شرط یہ بھی رکھی گئی تھی کہ آسیہ بی بی کو ملک سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا۔
سیف الملوک، جنہوں نے آسیہ بی بی کا مقدمہ لڑا، اس فیصلے کے بعد سلامتی کو لاحق خدشات کے تناظر میں پاکستان سے ہالینڈ منتقل ہو گئے تھے۔
سیف الملوک نے کہا کہ آسیہ بی بی کی سلامتی کے حوالے سے وقت نہایت قیمتی ہے۔ سیف الملوک کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کی حفاظت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ دیں۔
دوسری جانب جرمن محکمہ خارجہ نے بلڈ ام زونٹاگ سے کہا ہے کہ وہ آسیہ بی بی کے معاملے میں پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔ جرمن محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان چھوڑنے پر جرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک کے دروازے آسیہ بی بی کے لیے کھلے ہیں۔
آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح نے اطالوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے خاندان کو پاکستان سے نکلنے میں مدد دی جائے۔
ع ت، ع ح (ڈی پی اے، اے ایف پی)