آسیہ بی بی کے دفاع کے لیے پاکستان جاؤں گا، سیف الملوک
25 دسمبر 2018
پاکستانی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کے مطابق وہ اپنی مؤکلہ کے دفاع کے لیے پاکستان لوٹ جائیں گے۔ یہ پاکستانی وکیل اپنی جان کو لاحق خطرے کے باعث ملک سے رخصت ہو کر ہالینڈ چلے گئے تھے، جہاں وہ تاحال مقیم ہیں۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے منگل پچیس دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق سیف الملوک نے توہین اسلام کے جرم میں ماضی میں ایک زیریں عدالت کی طرف سے سزائے موت کا حکم پانے والی پاکستانی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا کامیابی سے قانونی دفاع کیا تھا اور اس سال 21 اکتوبر کو ملکی سپریم کورٹ نے اس اقلیتی شہری کو ان کے خلاف الزامات سے بری کر دیا تھا۔
آسیہ بی بی، جن کی عمر اس وقت 54 برس ہے اور جو پانچ بچوں کی ماں ہیں، بری کیے جانے کے چند روز بعد پاکستانی شہر ملتان کی ایک جیل سے رہا کر دی گئی تھیں، جہاں سے انہیں بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد پہنچا دیا گیا تھا۔
ان کی جیل سے رہائی کے بعد سے لے کر اب تک انہیں ان کی سلامتی کو لاحق خطرات کے باعث پاکستان ہی میں کہیں انتہائی حفاظت میں رکھا جا رہا ہے۔
پاکستانی حکام نے باقاعدہ طور پر ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ آج منگل کے روز، جب دنیا بھر میں کرسمس کا مسیحی تہوار منایا جا رہا ہے، کیتھولک عقیدے کی حامل آسیہ بی بی نے بھی یہ تہوار سخت سکیورٹی انتظامات کے تحت منایا۔
آسیہ بی بی کو بری کرنے کے پاکستانی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک میں بنیاد پرستی کی حد تک سخت گیر سوچ کی حامل مذہبی تنظیم تحریک لبیک کی طرف سے پرتشدد مظاہرے شروع کر دیے گئے تھے۔
جرمنی میں آسیہ بی بی کے وکیل کی پریس کانفرنس
03:03
تب ان مظاہروں میں ان مسلم مذہبی حلقوں کی طرف سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام نہ کرتے ہوئے یہ مطالبے بھی کیے گئے تھے کہ آسیہ بی بی کو سرعام پھانسی دی جائے۔
آسیہ بی بی کو ان کے خلاف لگائے گئے پیغمبر اسلام کی توہین کے الزام کے بعد 2010ء میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ قریب دو ماہ قبل اپنی رہائی تک مسلسل جیل میں بند تھیں۔
اکتوبر کی تیسرے عشرے میں تحریک لبیک کے حامی حلقوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے آسیہ کے حق میں فیصلے کے خلاف ایک اپیل بھی دائر کر دی گئی تھی۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے ابھی تک اس اپیل کی نہ تو سماعت شروع کی ہے اور نہ ہی اس کے لیے تاحال کوئی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس بارے میں آسیہ بی بی کے وکیل صفائی سیف الملوک نے منگل کے روز کہا کہ جب بھی اس اپیل کی سماعت ہو گی، وہ اپنی مؤکلہ کے عدالتی دفاع کے لیے پاکستان ضرور جائیں گے۔ سیف الملوک نے یہ بات آج کرسمس کے تہوار کی مناسبت سے کہی۔
م م / ا ا / اے پی
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔