زرداری پر فرد جرم عائد، نواز شریف کو مفرور قرار دے دیا گیا
9 ستمبر 2020
پاکستان میں انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت میں سابق صدر آصف زرداری پر ایک مقدمے میں باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی گئی جبکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر مفرور قرار دے دیا گیا۔
اشتہار
یہ پیش رفت قومی احستاب بیورو (نیب) کے ایک جج سید اصغر علی کی عدالت میں بدھ نو ستمبر کے روز دیکھنے میں آئی۔ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اور ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری پر باقاعدہ طور پر یہ الزامات عائد کر دیے گئے کہ انہوں نے 2008ء سے لے کر 2013ء تک، جب وہ صدارتی منصب پر فائز تھے، غیر ملکی حکمرانوں سے غیر قانونی طور پر تحائف وصول کیے تھے۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Bradshaw
6 تصاویر1 | 6
قومی احتساب بیورو کے وکلاء استغاثہ کے مطابق اسی نوعیت کی کرپشن کے الزام میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ اور ماضی میں تین بار ملکی وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو عدالت نے مفرور قرار دے دیا۔
آصف زرداری اور نواز شریف دونوں ہی بدعنوانی کے دیگر مقدمات میں اس وقت ضمانت پر ہیں۔
پاکستان میں اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ الزام لگائے جاتے ہیں کہ ان کے کئی موجودہ اور سابقہ رہنماؤں کو مبینہ کرپشن کے الزامات میں لیکن محض سیاسی طور پر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کا تاہم دعویٰ ہے کہ یہ دونوں سیاسی رہنما (آصف زرداری اور نواز شریف) ماضی میں بدعنوانی کے مرتکب ہوئے تھے اور انہیں نیب کی عدالتوں میں پیش کرنا قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے عمل کا حصہ ہے۔
نواز شریف نو ماہ سے برطانیہ میں
نواز شریف، جو آخری مرتبہ 2013ء سے لے کر 2017ء تک ملکی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے، عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد 2018ء میں کرپشن کے ایک مقدمے میں جیل بھیج دیے گئے تھے۔ وہ اپنے علاج کے نام پر گزشتہ تقریباﹰ نو ماہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
10 تصاویر1 | 10
قبل ازیں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں عدالت نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ پاکستان لوٹ کر عدالت میں پیش ہوں۔ اس پر سابق وزیر اعظم نے عدالت کے نام اپنے جواب میں لکھا کہ وہ درخواست کرتے ہیں کہ عدالت انہیں حاضر ہونے کے لیے دیے گئے اپنے حکم پر نظر ثانی کرے۔
ابھی میڈیکل سرٹیفیکیٹ نہیں ملا
اس درخواست میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا کہ ان کے لیے فی الحال پاکستان آ کر عدالت کے سامنے پیش ہونا ممکن نہیں۔ نواز شریف کی اس درخواست کے ساتھ ان کے وکلاء نے عدالت میں ان کی طبی رپورٹیں بھی جمع کرائیں۔ نواز شریف کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ ابھی تک ڈاکٹروں نے انہیں ایسا کوئی سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیا، کہ وہ برطانیہ سے پاکستان واپسی کے سفر کے لیے طبی طور پر اچھی حالت میں۔
پاکستانی میڈیا کے ایک حصے کے مطابق قومی احتساب بیورو کی ایک عدالت نے نواز شریف کو آج جس مقدمے میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر مفرور ملزم یا اشتہاری قرار دے دیا، اس کا تعلق ان کے خلاف دائر کیے گئے توشہ خانہ ریفرنس سے ہے۔
م م / اب ا
نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کے شہر لاہور میں کیا ہو رہا ہے؟
آج پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد اُن کے شہر لاہور میں ملی جلی صورتِ حال رہی۔ کہیں مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے احتجاج کیا تو کہیں پی ٹی آئی کے ورکرز نے جشن منایا۔
تصویر: T. Shahzad
شیر کا انتخابی نشان
لاہور کے شملہ پہاڑی چوک میں دو رکشا ڈرائیور نون لیگ کے انتخابی نشان شیر کے پاس بیٹھے نعرے لگا رہے ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
پریس کلب کے باہر احتجاج
مسلم لیگ نون کی ایم پی اے فرزانہ بٹ دیگر کارکنوں کے ہمراہ لاہور پریس کلب کے باہر زمین پر بیٹھ کر احتجاج کر رہی ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
برطرفی کا جشن
لاہور کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں موجود اس علاقے کے لالک چوک میں پی ٹی آئی آج رات نواز شریف کی برطرفی کا جشن منا رہی ہے۔
تصویر: T. Shahzad
’قاف‘ کے کارکن بھی خوش
لاہور کے مسلم لیگ ہاؤس میں مسلم لیگ قاف کے کارکنوں کی طرف سے مٹھائی بانٹی گئی۔
تصویر: T. Shahzad
دوکانیں معمول سے پہلے بند
احتجاجی سرگرمیوں کے لیے معروف لاہور کا فیصل چوک بھی ذیادہ تر سنسان رہا۔ نون لیگی کارکنوں کی اکا دکا ٹولیاں ریگل چوک تک آتی اور نعرے لگا کر واپس جاتی رہیں جبکہ کئی مارکیٹوں میں دوکانیں معمول سے پہلے ہی بند ہو گئیں۔