1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آصف علی زرداری دوسری مرتبہ صدر منتخب

عاطف توقیر
9 مارچ 2024

حکومتی حمایت یافتہ امیدوار اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر منتخب ہو گئے ہیں۔ ہفتے کے روز اس عہدے کے لیے پاکستان کے وفاقی اور صوبائی ایوانوں میں رائے شماری ہوئی۔

Korruption Pakistan | Gericht Ex-Präsident Asif Ali Zardari
تصویر: B.K. Bangash/dpa/AP/picture alliance

عارف علوی پاکستانی تاریخ کے مسلسل چوتھے صدر تھے، جو اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد اس عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک میں سیاسی تناؤ اپنے عروج پر ہے، حکومتی اتحاد کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری اور اپوزیشن کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو صدارتی امیدوار کے  طور پر نامزد کیا گیا تھا۔

بھٹو ریفرنس: سپریم کورٹ کی رائے تنقید کی زد میں

پاکستان میں نو منتخب قومی اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھا لیا

ملک کے 14ویں صدر کے انتخاب میں پاکستان کے وفاق اور صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد قانون سازوں نے حصہ لیا جب کہ رائے شماری کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے شروع  ہو کر سہ پہر چار بجے تک جاری رہا۔

وفاقی پارلیمان میں  آصف علی زرداری کو 255 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ ان کے مقابلے میں سنی اتحاد کونسل کے نامزد امیدوار محمود خان اچکزئی نے  119 ووٹ حاصل کیے۔

قومی اسمبلی میں 398 میں سے 381 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور جے یو آئی (ف) کے 13 ارکان نے ووٹ کاسٹ نہیں کیے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینٹروں  شبلی فراز، اعظم سواتی، مظفر حسین شاہ اور اعجاز چوہدری نے بھی اپنے ووٹ کاسٹ نہیں کیے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت والی سندھ اسمبلی میں آصف علی زرداری نے 151 ووٹ حاصل کیے جبکہ محمود خان اچکزئی کو 9 ووٹ ملے۔  وہاں کُل 161 ووٹ کاسٹ کیے گئے جن میں سے ایک ووٹ مسترد ہوا۔

سنی اتحاد کونسل کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو نامزد کیا گیا تھاتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

پنجاب اسمبلی میں آصف علی زرداری نے 246 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مخالف محمود خان اچکزئی کو 100 ووٹ ملے۔  صوبائی اسمبلی میں کل 353 میں سے 352 ارکان نے ووٹ ڈالا جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں محمود اچکزئی کو 91 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ حکومتی اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری کو 17 ووٹ پڑے۔ بلوچستان اسمبلی میں آصف علی زرداری کو 47 ووٹ ملے جبکہ محمود خان اچکزئی کو کسی رکن نے ووٹ نہیں دیا۔

صدر آصف علی زرداری اس سے قبل دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک  پاکستان کے صدر رہ چکے ہیں۔ انہیں کے دور میں اٹھارہویں آئینی  ترمیم منظور کی گئی تھی، جس کے تحت صدر کو حاصل زیادہ تر اختیارات وزیراعظم اور پارلیمان کو منتقل کر دیے گئے تھے۔

پاکستان ميں سياسی بحران، اپوزيشن جماعتيں کيا کہہ رہی ہيں؟

01:37

This browser does not support the video element.

عارف علوی کی ایوان صدر سے رخصتی

جمعے کے روز سبکدوش ہونے والے پاکستانی صدر عارف علوی کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا .  عارف علوی کی مدت صدارت اتوار کے روز باقاعدہ طور پر اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اور اسی روز وہ  نومنتخب صدر آصف علی زرداری کی تقریب حلف برداری کی تقریب میں شریک ہو ں گے۔

'نامکمل الیکٹورل کالج‘

جمعے کو صدارتی دوڑ میں شامل محمود خان اچکزئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے صدارتی انتخابات کو موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ چند الیکٹرول کالج تاحال اسمبلیوں میں موجود نہیں جب کہ دستور اسمبلیوں میں الیکٹرول کالج کے مکمل ہونے پر صدارتی انتخابات کے انعقاد کا کہتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے اچکزئی کے اس مطالبے کو 'غیرجمہوری‘ قرار دیا تھا اورکہا تھا کہ یہ ملک کو جمہوری راستے سے ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستانی نے محمود اچکزئی کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ ان انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان اور جماعت اسلامی نے ووٹ نہ ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔

'جمہوری قوتوں کا اتحاد ضروری‘

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ صدارتی انتخابات پاکستان میں فوجی اور سویلین اشرافیہ کے درمیان طاقت کے توازن کے آئینہ دار ہیں جب کہ یہی معاملہ عام انتخابات میں بھی دکھائی دیا۔  ''جرنیلوں نے فاتح منتخب کیے ہیں اور عوام نے انہیں قبول کرنا ہے۔ ایسا پہلی بار تو نہیں ہو رہا ہے، مگر نئی بات یہ ہے کہ پہلے اتنا کھل کر نہیں ہوتا تھا۔‘‘

افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی جمہوری تبدیلی کے لیےسیاسی قوتوں کا جمع ہونا ضروری ہے۔ جیسا 1980 کی ایم آر ڈی اور 2006 کے چارٹر آف ڈیموکریسی یا میثاق جمہوریت کی صورت میں سامنے آیا۔ ''بدقستمی سے دیگر جماعتوں کے خلاف عمران خان کی ہٹ دھرمی نے اس سمت میں ہر کوشش کو ناکام بنایا۔‘‘

 افراسیاب خٹک کا مزید کہنا تھا، '' ایسے میں ان صدارتی انتخابات سے واحد تبدیلی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلق کی مضبوطی ہو گی، کم از کم کچھ وقت کے لیے۔ اگر حالات آگے بھی بہتر رہتے ہیں تو ممکن ہے پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ بھی بن جائے۔‘‘

 

'زرداری ایک مدبر سیاست دان'

پیپلز پارٹی کے رہنما اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے تاہم آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اس وقت معاشرے میں موجود سیاسی تقسیم کے دوران آصف زرداری جیسے دوراندیش رہنما کی اشد ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں مرتضیٰ وہاب نے کہا،  ''ماضی میں بھی  آصف زرداری نے اپنے دورِ اقتدار میں جمہوریت اور پارلیمان کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ اسی دور میں اٹھارہویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ جیسی اہم پیش رفت ہوئیں۔  انہوں نے وفاق کی علامت کے طور پر عمدہ کردار ادا کیا تھا جب کہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈز کو بھی وہ ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب رہے تھے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس وقت پاکستان میں شدید نوعیت کی سیاسی قطبیت کے حالات ہیں۔ ایسے میں زرداری صاحب جیسی بصیرت والا شخص ایوان صدر میں زیادہ تجربے اور زیادہ تدبر کے ذریعے ان حالات کی تبدیلی کا ماخذ بن سکتا ہے۔‘‘

مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ ماضی میں ممنون حسین اور عارف علوی جیسے رہنما منصب صدارت پر بیٹھے مگر چوں کہ وہ خود کوئی بڑا سیاسی قد نہیں رکھتے تھے، اس لیے ان سے سیاسی نظام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ ''آصف زرداری ایک قومی رہنما ہیں اور جب کوئی ایسا بڑا رہنما کسی اہم عہدے پر براجمان ہوتا ہے، تو اس کے سیاسی اثر ورسوخ سے بھی نظام کو فائدہ پہنچتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں