’آفریدی انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے‘
7 جون 2011![](https://static.dw.com/image/6462553_800.webp)
پاکستانی کرکٹ کے اسٹار اور مایہ ناز آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی کے وکیل سید ظفرعلی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ پاکستانی کرکٹ بورڈ پی سی بی نے شاہد آفریدی کے خلاف کارروائی کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا،’ حتی کہ پاکستانی آئین کے مطابق بھی ہر کسی کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے پہلے اس کا مؤقف سنا جائے‘۔
سید ظفر علی نے کہا کہ بورڈ نے آفریدی کا بیان لیے بغیر ہی ان کے خلاف سخت کارروائی کی،’ پی سی بی نے آفریدی کو 18 مئی کو شوکاز نوٹس دیا اور پھر اچانک ہی بیرون ملک کرکٹ کھیلنے کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا گیا اور ساتھ ہی ان کا سینٹرل کنٹریکٹ بھی معطل کر دیا گیا، جو قانون کے خلاف ہے‘۔
شاہد آفریدی خود بھی کہہ چکے ہیں کہ بورڈ کو انہیں موقع دینا چاہیے تھا کہ وہ اپنی صفائی پیش کر سکیں،’ ٹیم کی انتظامیہ نے چیئر مین جو کچھ بتایا، انہوں نے اسی پر ہی ایکشن لے لیا۔ انہیں اس بارے میں مجھ سے بھی پوچھنا چاہیے تھا کہ دورہء ویسٹ انڈیز کے دوران کیا ہوا‘۔ آفریدی نے انضباطی کمیٹی کی تشکیل کے طریقہ کار پر بھی اعتراض کیا۔
آفریدی نے کہا کہ کپتانی سے ہٹائے جانے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے،’ میں نے کبھی بھی کپتانی کی پرواہ نہیں کی۔ میں کئی جونیئر کپتانوں کے تحت کھیل چکا ہوں اور اگر عمر اکمل کو بھی کپتان بنا دیا جائے گا تو میں اس کے ماتحت بھی کھیلنے کو تیار ہوں‘۔ انہوں نے کہا کہ ٹیم کے دیگر کئی سینئر کھلاڑی بھی بورڈ کے ہزیمت آمیز رویے پر نالاں ہیں لیکن سینٹرل کنٹریکٹ کی وجہ سے وہ خاموش ہیں،’ لیکن میرے لیے عزت کا مسئلہ پہلے آتا ہے‘۔
دوسری طرف بورڈ کے مشیر تفضل رضوی نے کہا ہے کہ بورڈ نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ قانونی ہے،’ سینٹرل کنٹریکٹ کی معطلی سزا نہیں ہے اور اگر آفریدی کو انضباطی کمیٹی کے فیصلے پر کوئی اعتراض ہوتا ہے تو وہ آزاد ٹربینول کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں‘۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شامل شمس