’آفریدی انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے‘
7 جون 2011پاکستانی کرکٹ کے اسٹار اور مایہ ناز آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی کے وکیل سید ظفرعلی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ پاکستانی کرکٹ بورڈ پی سی بی نے شاہد آفریدی کے خلاف کارروائی کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا،’ حتی کہ پاکستانی آئین کے مطابق بھی ہر کسی کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے پہلے اس کا مؤقف سنا جائے‘۔
سید ظفر علی نے کہا کہ بورڈ نے آفریدی کا بیان لیے بغیر ہی ان کے خلاف سخت کارروائی کی،’ پی سی بی نے آفریدی کو 18 مئی کو شوکاز نوٹس دیا اور پھر اچانک ہی بیرون ملک کرکٹ کھیلنے کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا گیا اور ساتھ ہی ان کا سینٹرل کنٹریکٹ بھی معطل کر دیا گیا، جو قانون کے خلاف ہے‘۔
شاہد آفریدی خود بھی کہہ چکے ہیں کہ بورڈ کو انہیں موقع دینا چاہیے تھا کہ وہ اپنی صفائی پیش کر سکیں،’ ٹیم کی انتظامیہ نے چیئر مین جو کچھ بتایا، انہوں نے اسی پر ہی ایکشن لے لیا۔ انہیں اس بارے میں مجھ سے بھی پوچھنا چاہیے تھا کہ دورہء ویسٹ انڈیز کے دوران کیا ہوا‘۔ آفریدی نے انضباطی کمیٹی کی تشکیل کے طریقہ کار پر بھی اعتراض کیا۔
آفریدی نے کہا کہ کپتانی سے ہٹائے جانے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے،’ میں نے کبھی بھی کپتانی کی پرواہ نہیں کی۔ میں کئی جونیئر کپتانوں کے تحت کھیل چکا ہوں اور اگر عمر اکمل کو بھی کپتان بنا دیا جائے گا تو میں اس کے ماتحت بھی کھیلنے کو تیار ہوں‘۔ انہوں نے کہا کہ ٹیم کے دیگر کئی سینئر کھلاڑی بھی بورڈ کے ہزیمت آمیز رویے پر نالاں ہیں لیکن سینٹرل کنٹریکٹ کی وجہ سے وہ خاموش ہیں،’ لیکن میرے لیے عزت کا مسئلہ پہلے آتا ہے‘۔
دوسری طرف بورڈ کے مشیر تفضل رضوی نے کہا ہے کہ بورڈ نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ قانونی ہے،’ سینٹرل کنٹریکٹ کی معطلی سزا نہیں ہے اور اگر آفریدی کو انضباطی کمیٹی کے فیصلے پر کوئی اعتراض ہوتا ہے تو وہ آزاد ٹربینول کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں‘۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شامل شمس