آلودہ شہروں میں ڈیزل گاڑیوں پر پابندی جائز، وفاقی جرمن عدالت
مقبول ملک ڈی پی اے
27 فروری 2018
وفاقی جرمن انتظامی عدالت نے فضائی آلودگی کے شکار جرمن شہروں میں ڈیزل گاڑیوں کے داخلے پر پابندی کو تحفظ ماحول کے پیش نظر ایک جائز اقدام قرار دے دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق مروجہ قوانین کے تحت یہ پابندی غلط نہیں ہے۔
اشتہار
منگل ستائیس فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کے مشرقی شہر لائپزگ میں وفاقی انتظامی عدالت نے آج اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ جن جرمن شہروں میں فضائی آلودگی خاص طور پر بڑا مسئلہ بن چکی ہے، وہاں زہریلی گیسوں کے مقابلتاﹰ زیادہ اخراج کی وجہ سے ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی خلاف قانون نہیں ہے۔
ساتھ ہی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ ڈسلڈورف اور شٹٹ گارٹ جیسے شہروں کو، جو اس مقدمے کی کارروائی میں فریق تھے، اپنے ان منصوبوں کو زیادہ مناسب اور متوازن بنانے کے لیے ان پر نئے سرے سے غور کرنا چاہیے، جن کا مقصد ان شہروں کے بلدیاتی علاقوں میں ہوا کو صاف رکھنا ہے۔
لائپزگ کی وفاقی انتظامی عدالت نے اس مقدمے میں اسی موضوع پر ان سابقہ فیصلوں پر دوبارہ غور کرنے سے بھی انکار کر دیا، جن میں متعلقہ عدالتیں پہلے ہی اپنے حکم سنا چکی ہیں۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ آج کے عدلتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بہت آلودہ فضا والے جرمن شہروں میں ڈیزل گاڑیوں کے داخلے پر پابندی سے قبل ہر شہر کی انتظامیہ کو شہریوں کو عبوری مدت کے لیے کچھ مہلت بھی دینا ہو گی اور ان پابندیوں کو یکدم کی بجائے صرف مرحلہ وار ہی متعارف کرایا جا سکے گا۔
اس مقدمے کا پس منظر یہ ہے کہ ڈسلڈورف اور شٹٹ گارٹ کے شہروں میں، جو وفاقی صوبوں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور باڈن ورٹمبرگ کے ریاستی دارالحکومت بھی ہیں، صوبائی انتظامی عدالتوں نے عوام کی طرف سے دائر کیے جانے والے مقدمات میں بلدیاتی انتظامی اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ہاں فضا کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے زیادہ سخت قوانین متعارف کرائیں۔
صوبائی عدالتوں کے فیصلوں کے بعد وفاقی انتظامی عدالت نے اب اپنے آج کے فیصلے کے ساتھ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور باڈن ورٹمبرگ کی صوبائی حکومتوں کا یہ موقف بھی مسترد کر دیا ہے کہ شہروں میں ڈیزل گاڑیوں کے داخلے پر پابندی کے لیے نئی قانونی بنیادوں کی ضرورت ہو گی، جو وفاقی حکومت کو مہیا کرنا چاہییں۔
جرمنی میں، جو اپنے ہاں تحفظ ماحول کے لیے کافی زیادہ کوششیں کرنے والا ملک ہے، کئی بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کی شرح کافی زیادہ ہے اور مقامی حکومتیں زیادہ تر اس امر کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہیں کہ اس آلودگی کی شرح مقررہ قانونی حدود سے تجاوز نہ کرے۔
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
اسٹارٹ اپ کمپنی ’ایئر ویژول‘ دنیا بھر کے کئی شہروں میں ہوا کے معیار کے بارے میں اپ ڈیٹ فراہم کرتی ہے۔ ’ایئر کوالٹی انڈکس‘ کے مطابق دنیا کے اہم لیکن خطرناک ترین ہوا والے شہروں کی درجہ بندی اس پکچر گیلری میں دیکھیے۔
تصویر: pictur- alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
1۔ لاہور
ایئر ویژول نے حالیہ دنوں میں لاہور کا ’ایئر کوالٹی انڈکس‘ پانچ سو سے زائد تک ریکارڈ کیا۔ PM2.5 معیار میں فضا میں موجود ایسے چھوٹے ذرات کا جائزہ لیا جاتا ہے جو سانس کے ذریعے پھیپھڑوں اور خون تک میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2012 کے ڈیٹا کے مطابق لاہور میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 68 رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. S. Hussain
2۔ نئی دہلی
ایئر کوالٹی انڈکس میں لاہور کے بعد آلودہ ترین ہوا بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ریکارڈ کی گئی جہاں PM2.5 ساڑھے تین سو تک ریکارڈ کیا گیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2012 کے ڈیٹا کے مطابق نئی دہلی میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 122 رہی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget
3۔ اولان باتور
منگولیا کا دارالحکومت اولان باتور ایئر ویژول کی اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں PM2.5 ایک سو ساٹھ سے زیادہ رہا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈیٹا کے مطابق اولان باتور میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 75 رہی تھی۔
تصویر: DW/Robert Richter
4۔ کلکتہ
بھارتی شہر کلکتہ بھی آلودہ ترین ہوا والے شہروں کی اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں PM2.5 حالیہ دنوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2014 کے ڈیٹا کے مطابق کلکتہ میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 61 رہی تھی۔
تصویر: DW/Prabhakar
5۔ تل ابیب
اسرائیلی شہر تل ابیب میں بھی PM2.5 کی حد ڈیڑھ سو کے قریب رہی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2014 میں جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق تل ابیب میں PM2.5 کی سالانہ اوسط بیس رہی تھی جب کہ قابل قبول حد پچاس سمجھی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/Robert Harding World Imagery/G. Hellier
6۔ پورٹ ہارکورٹ
ایک ملین سے زائد آبادی والا نائجیرین شہر پورٹ ہارکورٹ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈکس ایک سو چالیس ریکارڈ کیا گیا۔
تصویر: DW
7۔ ممبئی
بھارتی شہر ممبئی آلودہ ترین ہوا کے حامل شہروں کی اس فہرست میں شامل تیسرا بھارتی شہر ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس ایک سو تینتیس رہا۔
تصویر: picture alliance/AFP Creative/P. Paranjpe
8۔ شنگھائی
چینی شہر شنگھائی میں بھی بڑے لیکن آلودہ ہوا والے شہروں کی اس فہرست میں شامل ہے جہاں PM2.5 ایک سو انتیس ریکارڈ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Imaginechina/Guo Hui
9۔ شینگدو
چین کے شینگدو نامی شہر میں بسنے والے ایک ملین سے زائد انسان آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ ایئر ویژول کے مطابق اس شہر میں چھوٹے خطرناک ذرات ماپنے کا معیار ایک سو چودہ رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Xiaofei
10۔ ہنوئی
ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں بھی ایئر کوالٹی انڈیکس کا درجہ ایک سو بارہ رہا جو قابل قبول معیار سے دوگنا سے بھی زائد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Dinh Nam
10 تصاویر1 | 10
گنجان آباد شہری علاقوں میں اس آلودگی میں وہ زہریلی کاربن گیسیں کافی بڑا کردار ادا کرتی ہیں، جو نظام تنفس کی بیماریوں کی وجہ بننے کے علاوہ دل اور دوران خون کی کئی طبی شکایات کو شدید تر بنا دینے کا سبب بھی بنتی ہیں۔
تحفظ ماحول کے وفاقی جرمن دفتر کے مطابق جن بڑے جرمن شہروں کو بہت زیادہ فضائی آلودگی کا سامنا ہے، وہاں 60 فیصد سے بھی زیادہ آلودگی کی وجہ بھاری ٹریفک اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہی بنتے ہیں۔ ان نقصان دہ کاربن گیسوں میں بھی ڈیزل گاڑیوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھویں کا تناسب ہی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
عالمی یوم ماحولیات کا میزبان بھارت کیا میزبانی کا اہل ہے؟
’پلاسٹک آلودگی کو مات دو‘ کے عنوان سے اس برس پانچ جون کو منائے جانے والے یوم ماحولیات کی عالمی میزبانی بھارت کر رہا ہے لیکن کیا بھارت اس حوالے سے نمائندگی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟
تصویر: AP
اس برس حکومتوں، صعنتوں، کمیونٹی اور فرد کی سطح پر زور دیا جائے گا کہ وہ انسانی صحت اور ماحولیات کے لیے انتہائی نقصان دہ پلاسٹک کے بجائے پائیدار متبادل ذرائع ڈھونڈیں اور پلاسٹک کا استعمال کم کریں۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
دنیا میں ہر سال 500 بلین پلاسٹک کے تھیلے استعمال کیے جاتے ہیں جو آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/blickwinkel/fotototo
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے تمام سمندروں میں ہر سال 8.8 ملین ٹن پلاسٹک پر مشتمل کچرا پھینکا جاتا ہے۔ اس میں 60 فیصد آلودگی کا ذمہ دار بھارت ہے
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
بھارت میں ہر برس تقریباً 1.2 ارب ٹن پلاسٹک اور دیگر کچرا صرف دریائے گنگا میں ہی پھینکا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Verma
رپورٹ کے مطابق بھارت کا شمار پلاسٹک آلودگی پھیلانے والے دنیا کے چار بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔
تصویر: AP
بھارت کے سینٹرل پلوشن کنٹرول بورڈ کی 2015ء میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق بھارت کے 60 بڑے شہروں میں روز انہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پر مشتمل کچرا پیدا ہوتا ہے۔
تصویر: AP
ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ اگر صورتحال کنٹرول نہ کی گئی تو 2025ء تک سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد سے زیادہ پلاسٹک پر مشتمل کچرے کی تعداد ہو گی۔