ایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور نوبل انعام یافتہ شخصیت شیریں عبادی نے روہنگیا مسلمانوں کے معاملے کو نظر انداز کرنے پر میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی پر کڑی تنقید کی ہے۔
اشتہار
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ مظالم نے وہاں کی ڈی فیکٹو رہنما سوچی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ آنگ سان سوچی کو اُن کی روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر خاموشی اور میانمار کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان پر کیے جانے والے مبینہ ظلم و ستم کی مذمت نہ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
روہنگیا مسلمان میانمار میں نسلی اقلیت ہیں اور ان کی زیادہ آبادی مغربی صوبے راکھین میں رہائش پذیر ہے۔ میانمار کی حکومت روہنگیا اقلیت کو سرکاری طور پر اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور کئی عشروں سے ملک کی بدھ اکثریت پر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے اور اُنہیں مظالم کا نشانہ بنانے کا الزام ہے۔
حالیہ دنوں میں متعدد عالمی رہنماؤں اور بین الاقوامی سطح پر معروف شخصیات نے سوچی سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسف زئی نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں سوچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا،’’میں اب بھی اپنی نوبل پرائز یافتہ ساتھی آنگ ساں سوچی کی جانب سے ایسی ہی مذمت کا انتظار کر رہی ہوں۔ یہی انتظار تمام دنیا اور روہنگیا مسلمان بھی کر رہے ہیں۔‘‘
ملالہ کے بعد ایرانی نوبل انعام یافتہ خاتون شیریں عبادی نے بھی میانمار میں روہنگیا اقلیت پر ہونے والے مظالم کی مذمت کی ہے۔ عبادی نے ڈی ڈبلیو کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے اس تمام وقت میں سوچی کی حمایت کی جب وہ ایک سیاسی قیدی کی حیثیت سے نظر بند تھیں۔
عبادی نے تاہم ایک نکتے کی وضاحت کی اور وہ یہ کہ عام طور پر لوگ سوچی کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی رہنما سمجھتے ہیں۔ شیریں عبادی کا کہنا تھا،’’ سوچی نے کبھی بھی انسانی حقوق کے لیے کام نہیں کیا۔ وہ ایک سیاستدان ہیں جنہوں نے سن انیس سو نوے کے آزادانہ انتخابات جیتے لیکن ملک کی فوجی جنتا کے ہاتھوں قید کر لی گئیں۔ سوچی نے اپنے حامیوں کو فساد پر اکسانے کی بجائے ایک پرامن مزاحمت کا انتخاب کیا۔‘‘
سابق ایرانی جج عبادی کا کہنا تھا کہ سوچی کی فوجی آمریت کے خلاف پر امن مزاحمت نے ہی انہیں نوبل پرائز کا حقدار بنایا تھا۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں اقتدار میں آنے کے بعد سوچی نے جمہوریت سے منہ موڑ لیا۔ شیریں عبادی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا،’’ جمہوریت کا مطلب ہے کہ ایک ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ایک جیسے حقوق حاصل ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو شہریت نہیں دی گئی اور وہ ملک میں بدھ مت کے ماننے والوں اور برمی فوج کی جانب سے حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔‘‘
عبادی کی رائے میں تاہم سوچی سے نوبل انعام کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں۔ شیریں عبادی کے مطابق سوچی نے نوبل انعام جبر کے سامنے پر امن احتجاج کر کے حاصل کیا تھا۔ تب وہ اس کی حقدار تھیں۔ ایرانی ایکٹیوسٹ کی رائے میں،’’نوبل انعام حاصل کرنے والے اس کے حصول کے بعد اپنے رویوں میں کیا تبدیلی لاتے ہیں اس سے نوبل کمیٹی کا کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘
خیال رہے کہ میانمار کی نوبل پرائز یافتہ رہنما آنگ سان سوچی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے الزام کو مسترد کیا ہے۔ علاوہ ازیں آنگ سان سُوچی نے اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کے اُس فیصلے کو رَد کر دیا تھا، جس میں میانمار کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف جرائم کے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
آنگ سان سوچی ستر برس کی ہو گئیں
میانمار میں حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی ستر برس کی ہو گئی ہیں۔ ڈی ڈبیلو نے اس موقع پر سوچی کے سیاسی سفر کو تصاویر کی شکل میں انہیں خراج عقیدت کے طور پر پیش کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نوآبادیاتی دور میں پیدائش
آنگ سان سوچی انیس جون 1945ء کو رنگون میں پیدا ہوئی تھیں۔ برطانوی نو آبادیاتی دور میں رنگون برما کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ وہ برما کے ایک قومی ہیرو آنگ سانگ کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد برما کی آزادی دیکھ نہیں سکے تھے، 1947ء میں وہ ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ تصویر آنگ سانگ پر قاتلانہ حملے سے تھوڑی دیر پہلے لی گئی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
سیاست کی ابتدا
آنگ سان سوچی بھارت میں پروان چڑھیں اور انہوں نے اعلٰی تعلیم برطانیہ میں حاصل کی۔ ان کے شوہر اور دونوں بیٹے برطانوی شہری ہیں۔ 1988ء میں میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف چلنے والی پرتشدد تحریک کے دوران وہ وطن واپس پہنچیں۔ 26 اگست 1988ء کو سوچی نے اپنے پہلے خطاب میں جمہوریت کی بات کی۔
تصویر: AFP/Getty Images
انتخابی نتائج نظر انداز
امن و امان کی ریاستی کونسل نے 1990ء میں میانمار میں انتخابات کرانے کی اجازت دی۔ آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی ’این ایل ڈی‘ اسی فیصد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن فوجی حکومت نے ان نتائج کو بالکل نظر انداز کر دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Sato
بار بار نظر بندی
1989ء میں انتخابات سے قبل آنگ سان سوچی کو پہلی مرتبہ نظر بند کیا گیا۔ انہیں کئی مرتبہ یہ سزا دی گئی اور 2010ء تک وہ تقریباً 15 برس نظر بندی میں گزار چکی تھیں۔ فوجی حکومت نے ان کی نقل و حرکت تو محدود کر دی لیکن وہ ان کی کرشماتی شخصیت کے جادو کو روک نہ سکی۔
تصویر: picture-alliance/epa/N. Chan Naing
امن کا نوبل انعام
آنگ سان سوچی کو 1991ء میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے ان کی خدمات کے عوض امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہیں خدشہ تھا کہ فوجی حکومت انہیں میانمار میں دوبارہ داخل نہیں ہونے دے گی، اس لیے ان کے بیٹے کم نے اوسلو میں یہ ایوارڈ وصول کیا۔
تصویر: AP
رہائی کا مطالبے
نظر بندی کے دوران آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کے کارکن اور دنیا بھر میں ان کے حامی سیاستدان ان کی رہائی کے مطالبے کرتے رہے۔ نوبل انعام کے علاوہ انہیں مغربی اقوام کی جانب سے متعدد دیگر ایوارڈ بھی دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
نظر بندی کا خاتمہ
13 نومبر2010ء کو آنگ سان سوچی کی نظر بندی مکمل طور پر ختم کر دی گئی۔ نظر بندی کا خاتمہ سوچی اور فوجی حکومت کے مابین ان مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوا، جو 2007ء سے جاری تھے۔ فوجی حکومت بین الاوقامی سطح پر اپنے تنہائی کو ختم کرنا چاہتی تھی۔
تصویر: picture alliance/epa/N. C. Naing
رکن اسمبلی
2012ء میں آنگ سان سوچی پہلی مرتبہ پارلیمان پہنچی۔ ان کی جماعت این ڈی ایل نے ضمنی انتخابات میں 45 میں سے 43 نشستین حاصل کی تھیں۔ 1990ء کے بعد یہ پہلے انتخابات تھے، جن میں اس جماعت کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ 2015ء کے اواخر میں میانمار میں دوبارہ عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AP
نوبل انعام کے بیس سال بعد اوسلو میں
جولائی 2012ء میں آنگ سان سوچی نے اوسلو جا کر بیس سال بعد اپنا امن کو نوبل انعام وصول کیا۔ اس موقع پر انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ اس ایوارڈ نے جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں میری لہمیت بڑھائی تھی۔‘‘ ساتھ ہی سوچی نے عالمی برادری نے میانمار میں جاری اصلاحات میں تعاون کی درخواست بھی کی۔
تصویر: Reuters
کسی امریکی صدر کا پہلا دورہ
2012ء کے آخر میں امریکی صدر باراک اوباما نے میانمار کا دورہ کیا۔ اس دوران اوباما نے آنگ سان سوچی سے اسی گھر میں ملاقات کی، جس میں وہ کئی برسوں تک نظر بند رہی تھیں۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
برلن میں اعزاز
2014ء میں آنگ سان سوچی نے جرمنی کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس موقع پر برلن میں جرمن صدر یوآخم گاؤک نے سوچی سے ملاقات کی اور انسانی حقوق اور اس دوران جمہوریت کے لیے خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ولی برانڈ ایوارڈ بھی دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میانمار کا مستقبل
آنگ سان سوچی اگلے انتخابات کے بعد ملکی صدر نہیں بن سکتیں۔ میانمار کے آئین کے مطابق کوئی بھی سیاستدان، جس کے بچے یا شوہر غیر ملکی شہریت رکھتے ہوں، اس منصب پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے قوی امید ہے کہ 2015ء کے انتخابات کے بعد سوچی کو کوئی اور اہم ترین منصب دیا جائے گا۔