آٹھویں سیارے کی دریافت میں ناسا نے مصنوعی ذہانت استعمال کی
عابد حسین
15 دسمبر 2017
امریکی خلائی ادارے ناسا نے گوگل کی مصنوعی ذہانت کو استعمال میں لاتے ہوئے ایک اور نظام شمسی میں آٹھواں سیارہ دریافت کیا۔ ناسا اور گوگل نے مشترکہ طور پر ایک کمپیوٹر میں اس سیارے کی معلومات کو فیڈ کر کے حتمی رائے مرتب کی۔
اشتہار
اس کمپیوٹر کے ذریعے کیپلر دوربین کی مدد سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا مطالعہ کیا گیا۔ کیپلر دوربین کا ڈیٹا امریکی ادارے نے جمع کیا تھا اور مصنوعی ذہانت کا جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی جائنٹ گوگل کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔ اس کمپیوٹر نے معلومات کا بھرپور جائزہ لیا اور اس کی تصدیق کی کہ زمین کے نظام شمسی کے قریب واقع ایک دوسرے سولر سسٹم کا یہ سیارہ پایا جاتا ہے۔
اس طرح کیپلر نائنٹی (Kepler-90) نامی سولر نظام کا یہ آٹھواں سیارہ ہے۔ اس کی دریافت سے کیپلر اور سورج کے نظاموں میں واقع سیاروں کی تعداد برابر ہو گئی ہے۔ اس سے قبل نظام شمسی کے معلوم سیاروں کی تعداد سب سے زیادہ خیال کی جاتی رہی ہے۔
ناسا نے جمعرات چودہ دسمبر کو بتایا کہ کیپلر ٹیلی اسکوپ سے حاصل شدہ ڈیٹا کو مصنوعی ذہانت سے پرکھنے کے بعد اس سیارے کا نام Kepler-90i تجویز کیا گیا ہے۔ نیا سیارہ پہلے سے دریافت شدہ ستارے Kepler-90 کا حصہ اور اُس کے خاصے قریب ہے۔
یہ سیارہ اپنے مرکزی ستارے کے مدار کا چکر چودہ ایام اور چار گھنٹے میں مکمل کرتا ہے۔ اس سیارے کی سطع کا اوسط درجہٴ حرارت 426 سینٹی گریڈ یا 800 فارن ہائٹ محسوس ہوتا ہے اور اِس درجہٴ حرارت پر زندگی کی افزائش یا بقا ناممکنات میں سے ہے۔
ناسا کے ایک خلائی سائنسدان اینڈریو وینڈربرگ کا کہنا ہے کہ زمین کے شمسی نظام میں چھوٹے سیارے مرکزی ستارے سورج کے قریب اور بڑے سیارے بہت دور ہیں لیکن جوں جوں کائنات کی وسعتوں کے قریب پہنچ رہے ہیں، سب کچھ الجھاؤ کا شکار دکھائی دیتا ہے۔
کیپلر نائنٹی وَن نامی دریافت ہونے والا سیارہ زمین سے 2545 نوری سال کی مسافت پر ہے۔ایک نوری سال تقریباً ساڑھے نو ٹریلین کلومیٹر یا 5.8 ٹریلین میل کے برابر ہوتا ہے۔ ناسا نے یہ بھی بتایا کہ نیا سیارہ بظاہر پہاڑیوں سے بھرا دکھائی دیتا ہے۔
ہمارا سورج: گرم گیسوں کا گولہ
کائنات میں ہمارے سورج جیسے اربوں ستارے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج کے بغیر زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہیں تھا۔ سورج کے بارے میں صدیوں سے تحقیق کی جا رہی ہے۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/Irlmeier, K.
آگ کا قدیمی گولہ
زمین پر انسانی وجود سے بھی اربوں برس پہلے سے سورج جگمگا رہا ہے۔ نظام شمسی کے دیگر سیاروں کے ہمراہ 4.6 بلین برسوں قبل سورج گیسوں کے بادلوں کے سبب وجود میں آیا۔ ماہرین کے مطابق آئندہ پانچ بلین سالوں تک سورج کا وجود قائم رہے گا جس کے بعد اس کی توانائی ختم ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
توانائی پر تحقیق کرنے والوں کی توجہ کا مرکز
سورج بنیادی طور پر ایک بڑے ایٹمی ری ایکٹر کے مانند ہے۔ اس کے مرکز میں درجہ حرارت اور دباؤ اس قدر شدید ہےکہ ہائیڈروجن کے ایٹم ضم ہو کر ہیلیم کے ایٹم بن جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بڑی مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔
تصویر: rangizzz/Fotolia.com
زمین سے سو گنا بڑا
زمین سے دیکھتے ہوئے سورج اتنا بڑا دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کا نصف قطر یا رداس سات لاکھ کلو میٹر ہے۔ سورج کے مرکز میں درجہ حرارت پندرہ ملین ڈگری سیلسیئس سے بھی زیادہ ہے جب کہ سطح پر سورج کا درجہ حرارت ساڑھے پانچ ہزار ڈگری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
اربوں میں ایک
خلا میں چمکتے ستاروں کے مرکز میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارا سورج بھی کائنات میں موجود ایسے ہی اربوں ستاروں میں سے ایک ہے۔ دوسرے ستاروں کے مقابلے میں سورج درمیانے حجم کا ستارہ ہے۔ کائنات میں ان گنت ستارے سورج سے سینکڑوں گنا بڑے بھی ہیں۔
تصویر: Ye Aung Thu/AFP/Getty Images
سطح پر دکھنے والی بے چینی
سورج کے اندر سے نکلنے والا انتہائی روشن اور گرم مادہ سطح پر پہنچنے کے بعد ٹھنڈا ہو جاتا ہے تاہم درجہ حرارت کم ہوتے ہی واپس مرکز کی جانب مڑ جاتا ہے۔ کائنات میں صرف سورج ہی وہ واحد ستارا ہے جس کا ماہرین اتنی باریک بینی سے تجزیہ کر پائے ہیں۔
تصویر: Getty Images/Q. Rooney
جادوئی سیاہ دھبے
سورج کی سطح پر سیاہ دھبوں کا مشاہدہ قبل از مسیح کے زمانے سے کیا جا چکا ہے۔ گیلیلیو کی تحریروں میں بھی ان کا ذکر موجود ہے۔ گزشتہ وقتوں کے انسانوں کے لیے یہ حیرت انگیز مشاہدے تجسس کا سبب تھے۔ لیکن اب ہم جان چکے ہیں کہ انتہائی مضبوط مقناطیسی میدان ان سیاہ دھبوں کا سبب بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
خطرناک طوفان
جب سورج پر سرگرمی بڑھ جائے تو ’جیو میگنیٹک‘ طوفان پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت سورج سے بڑی مقدار میں ’چارج شدہ‘ ذرات خلا میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ ذرات خلا میں موجود سیٹلائٹس کو تباہ کر سکتے ہیں اور زمین پر بھی پاور اسٹیشنز کو متاثر کر سکتے ہیں۔
تصویر: dapd
جب آسمان دمکتا ہے
ایسے ہی طوفان ایک دلفریب منظر کا سبب بنتے ہیں اور آسمان دمک اٹھتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے کہ چارج شدہ ذرات زمین کے کرہ ہوائی سے ٹکراتے ہیں۔ اس مظہر کو ’پولر روشنی‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: dapd
لیکن یاد رکھیے!
سورج گرہن کو کبھی ننگی آنکھ سے مت دیکھیے۔ سورج اس وقت بھی انتہائی روشن ہوتا ہے جب چاند اس کے سامنے آ چکا ہو۔ خاص طرح کی عینک پہنے بغیر سورج گرہن دیکھنے سے بینائی جا سکتی ہے۔