آٹھ مئی 1945ء کو نازی جرمن افواج نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے تاہم اس کے باوجود بھی جرمنی میں ہر جانب امن قائم نہیں ہوا تھا۔ اس دن جرمن شہریوں کی بڑی تعداد کو یہ احساس تک نہیں تھا کہ وہ آزاد ہو چکے ہیں۔
اشتہار
سرکاری دستاویزات پر درج تاریخ کے مطابق آٹھ مئی 1945ء کو رات گیارہ بج کر پینتالیس منٹ پر فیلڈ مارشل ولہیلم کائٹل نے جرمن افواج کے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم کائٹل نے نو مئی کو اُس حکم نامے کے نیچے اپنا نام لکھا تھا اور محض روایتی طور پراُس دستاویز پر ایک مرتبہ پھر دستخط کیے تھے، جس پر ایک دن قبل فرانسیسی شہر رائم میں اتفاق رائے ہو چکا تھا۔ رائم میں جنرل الفریڈ یولڈ نے اعلان کیا تھا، ’’جرمن بری، بحری اور فضائی افواج ملک کے اندر اور باہر اتحادی اور سوویت دستوں کے سامنے فوری طور پر غیر مشروط ہتھیار ڈال دیں۔‘‘ اس حکم نامے کے مطابق آٹھ مئی کو رات گیارہ بج کر ایک منٹ پر تمام جنگیں کارروائیاں روک دی گئی تھیں۔
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں آج بھی جرمنی کے مختلف حصوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ نشان امن کے فروغ کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ وہ جنگ کی آگ سے نہ کھیلیں۔
تصویر: DW/Holm Weber
برلن کا چرچ
اس بات پر یقین مشکل لگتا ہے کہ 1945ء میں جرمن شہروں پر بھی اتنی شدت سے بمباری کی گئی جیسی بعض عراقی اور شامی شہروں میں۔ تباہ ہونے والی عمارتوں میں سے بعض کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا تاکہ وہ جنگ کی تباہ کاریوں کی یاد گار کے طور پر موجود رہیں۔ انہی میں برلن کا یہ ولہیلم میموریل چرچ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hiekel
پانچ میناروں والی خوبصورت عمارت
رومن طرز تعمیر کے حامل ولہیلم میموریل چرچ کی تعمیر 1895ء میں مکمل ہوئی۔ اتحادی طیاروں نے اس پر 23 نومبر 1943ء کو اسے بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس چرچ کے 71 میٹر طویل ٹاور کا ملبے کو میموریل آف وار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
تباہی کی یاد گار
برلن کے فرانسسکن موناسٹری چرچ کی تاریخ 1250ء تک جاتی ہے۔ تین اپریل 1945ء کو اس چرچ کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ اس چرچ کی تعمیر نو تو کر دی گئی مگر بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والے ملبے کو یاد دگار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: gemeinfrei/imago/F. Berger
رائن کنارے کا چرچ
کولون کے وسط میں موجود سینٹ البان کا چرچ بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران بمباری کا نشانہ بنا۔ اس تصویر میں اس چرچ کے تباہ شدہ کوائر کو دکھایا گیا ہے۔ بغیر چھت کے اس چرچ کو اب جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار کے طور پر محفوظ رکھا گیا ہے۔
تصویر: CC BY-SA 3.0/Raimond Spekking
بچی کھچی روایات
سینٹ البان سے کچھ ہی فاصلے پر موجود سینٹ کولمبا کا چرچ موجود ہے۔ یہ کولون شہر کے قدیم ترین چرچوں میں سے ایک ہے۔ اس کا سنگ بنیاد 980ء میں رکھا گیا تھا۔ یہ چرچ بھی 1943ء میں بمباری کے نتیجے میں تقریباﹰ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
امید کی ایک اور کرن
اپریل 1945ء میں زیربسٹ محل پر بم برسائے گئے اور یہ جل کر تباہ ہو گیا۔ بیش قیمت اندرونی نقش ونگار تباہ ہو گیا۔ صرف اس کا مشرقی حصہ تباہی سے بچ گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wolf
ہیمبرگ کا ’گومورا‘
ہیمبرگ کا یہ چرچ بھی بمباری کا نشانہ بنا۔ جنگ کے بعد ہیمبرگ کی سینیٹ نے اس کی تعمیر نو نہ کرانے کا فیصلہ کیا۔ سینٹ نکولاس چرچ کے باقیات کو 1933ء اور 1945ء کے درمیان جنگ کا شکار ہونے والوں کے نام کر دیا گیا۔ اس چرچ کے تہہ خانے میں ایک میوزیم قائم کر دیا گیا ہے جس میں جنگ کے بارے میں تفصیلات رکھی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تباہی ایک نئی ابتداء
1945ء میں ڈریسڈن کا ’فراؤون کرشے‘ یا خواتین کا بمباری کا نشانہ بنا مگر یہ مکمل تباہی سے دوچار ہونے سے بچ گیا۔ تاہم بعد میں آگ بھڑک اٹھنے سے اس کا پتھر سے بنا بڑا گنبد گِر گیا۔ اس کا ملبہ اس کے بعد سے جنگ اور تباہی کے خلاف ایک یادگار کے طور پر موجود ہے۔
تصویر: Hulton Archive/AFP/Getty Images
نئی امید
جرمنی کے اتحاد کے بعد 1996ء میں اس کی بحالی کا کام شروع ہوا جو نو برس پر محیط تھا۔ پرانی عمارت کے پتھر نئی تعمیر میں بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کی تعمیر نو پر 180 ملین کا یورو کا خرچ ہوا جس کے لیے ملک اور ملک سے باہر 16 مختلف اداروں نے فنڈز فراہم کیے۔
تصویر: DW/Holm Weber
9 تصاویر1 | 9
خیال کیا جاتا ہے کہ سوویت رہنما جوزف اسٹالن کا اصرار تھا کہ اِس طرح کی ایک تقریب برلن میں بھی منعقد کی جائے کیونکہ رائم میں سوویت افواج کے اعلٰی عہدیدار شریک نہیں ہو سکے تھے۔ جرمن روسی میوزیم کی مارگوٹ بلانک کہتی ہیں کہ اسٹالن کی یہ خواہش یقیناً ایک اہم کردار ادا کر سکتی تھی۔’’ تاہم برطانیہ نے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے سب کی توجہ پہلی عالمی جنگ کی جانب مبذول کرائی، جب جرمن افواج نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے شہری حکومت کو آگے کر دیا تھا تاکہ وہ بعد میں دعوٰی کر سکیں کہ وہ میدان جنگ میں ناقابل شکست رہے تھے۔‘‘
بلانک مزید بتاتی ہیں کہ دوبارہ اس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لیے برطانیہ نے اسٹالن کی تجویز پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد برلن کے کارل ہورسٹ نامی علاقے میں جرمن افواج کے ہتھیار ڈالنے کی ایک اور تقریب منعقد ہوئی، جس میں فوج کے اعلٰی عہدیداروں نے شرکت کی۔ بری فوج کی جانب سے فیلڈ مارشل ولہیلم کائٹل ، فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اسٹُمف اور ایڈمرل فریڈےبرگ نے بحریہ کی نمائندگی کی۔ رائم اور کارل ہورسٹ میں ہونے والی یہ تقاریب نازی جرمنی کے صدر کارل ڈؤنٹز کی رضامندی سے ہوئی تھیں۔
تیس اپریل کو اڈولف ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی اور اس کے بعد ڈؤنٹز ہٹلر کے باقاعدہ جانشین بنے تھے۔ ماہر تاریخ یوہانس ہوئرٹر کہتے ہیں، ’’اس موقع پر نازی حکومت نے نہیں بلکہ صرف فوج نے ہتھیار ڈالے تھے۔‘‘ اس کے بعد 23 مئی کو برطانوی افواج نے کارل ڈؤنٹز اور ان کی حکومت کے دیگر اعلٰی عہدیداروں کو گرفتار کیا تھا۔
نازی حکومت کے دور میں قائم کیے جانے والے تمام اذیتی مراکز کو آٹھ مئی کو ہی آزاد کرا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک افراتفری کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی اور لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھرم رہے تھے۔ ان میں سے کچھ تو ایسی حالت میں تھے کہ آزاد ہونے کے چند ہفتوں بعد تک بھی وہ انہی اذیتی مراکز میں موجود رہے۔ نوے سالہ اَیستھر بجارنو اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پہلی مرتبہ میں نے اپنی مرضی سے اکارڈین بجایا تھا۔‘‘ اس سے پہلے انہیں ہمیشہ نازی فوجیوں کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا تھا۔ ’’یہ میری آزادی تھی، ہمیں علم تھا کہ اب ہم آزاد ہو چکے ہیں۔‘‘