آٹھ ہزار پاؤنڈ لے کر فرانس سے برطانیہ پہنچانے والوں کو سزا
شمشیر حیدر7 مئی 2016
شمالی فرانس کی ایک عدالت نے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث پانچ افراد کو مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنا دی ہیں۔ ملزمان پر الزام تھا کہ وہ تارکین وطن کی غیر قانونی طور پر فرانس سے برطانیہ جانے میں مدد کر رہے تھے۔
اشتہار
انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے اس گروہ میں تین کرُد اور دو فرانسیسی شہری شامل تھے۔ یہ اسمگلر کسی تارک وطن کو برطانیہ پہنچانے کے لیے فی کس آٹھ ہزار برطانوی پاؤنڈ وصول کرتے تھے اور انہیں برطانیہ اور فرانس کو ملانے والی زیر سمندر سرنگ ’یورو ٹنل‘ کے ذریعے برطانیہ اسمگل کیا جاتا تھا۔
یورو ٹنل کے قریب مہاجرین کے عارضی کیمپوں میں ایسے سینکڑوں تارکین وطن موجود ہیں جو یورو ٹنل عبور کے برطانیہ جانے کے خواہش مند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پناہ گزین اس لیے برطانیہ جانا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک برطانیہ میں روزگار تلاش کرنے کے مواقع فرانس کی نسبت زیادہ ہیں۔
سزا پانے والے پانچوں افراد پر الزام تھا کہ وہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایک منظم گروہ کا حصہ تھے۔ یہ گروہ پچھلے سال اگست سے لے کر رواں برس فروری تک کئی تارکین وطن کو غیر قانونی طریقے سے برطانیہ منتقل کرتا رہا تھا۔
اس گروہ کا سربراہ ایک ایرانی کُرد ہے جسے ’کاپا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ابھی تک مفرور ہے۔ کاپا کو اس کی عدم موجودگی میں چھ سال قید اور پچاس ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ فرانسیسی حکام نے اس کی گرفتاری کے لیے بین الاقوامی وارنٹ جاری کر رکھا ہے۔
اس گروہ میں شامل دیگر دو کردوں کا تعلق ایران اور عراق سے ہے۔ ان دونوں اسمگلروں کو دو دو برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ افراد برطانیہ جانے کے خواہش مند تارکین وطن سے رابطہ کرتے اور پھر انہیں موٹر وے پر موجود ایک خاص مقام پر پہنچا دیتے تھے جہاں سے انہیں گاڑیوں میں سوار کرا کے برطانیہ منتقل کر دیا جاتا تھا۔
جن دو فرانسیسی شہریوں کو سزا سنائی گئی ہے، وہ شمالی فرانس میں واقع ڈنکرک نامی شہر میں ایک کیفے چلاتے تھے۔ ان دونوں پر الزام ہے کہ وہ اسمگلروں کو ’لاجسٹک سپورٹ‘ فراہم کرتے تھے۔ ان میں سے ایک فرانسیسی شہری کو دو سال جب کہ دوسرے کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جب کہ انسانوں کی اسمگلنگ کے شبے میں گرفتار ایک ٹیکسی ڈرائیور کو بری کر دیا گیا۔
فرانسیسی حکام کے مطابق حالیہ مہینوں کے دوران غیر قانونی طور پر فرانس سے برطانیہ جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پناہ گزین یورو ٹنل کے ذریعے برطانیہ کی جانب گامزن ٹرکوں اور ٹرینوں میں چھپ کر برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرانس کی پولیس یونین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ موسم گرما میں غیر قانونی طور پر برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔