ایک تحقیق کے مطابق لاکھوں خواتین بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری طور پر آپریشن کراتی ہیں جبکہ ان کے ہاں بچے کی پیدائش محفوظ قدرتی طور پر بھی ممکن ہوتی ہے۔ خبردار کیا گیا ہے کہ یہ آپریشن زیادہ تر خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
اشتہار
ایک نئی تحقیق کے نتائج کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں خواتین بچوں کی پیدائش کی خاطر غیر ضروری اور ممکنہ طور پر خطرناک آپریشن کروا رہی ہیں۔ اس مطالعہ کے مطابق البتہ ان میں سے بہت سے خواتین قدرتی طریقے سے بچے کی پیدائش کر سکتی ہیں۔
اس ریسرچ کے مطابق اختیاری آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش عالمی سطح پر ایک وباء بن چکی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق سن 2000 تا 2015 آپریشن سے بچوں کی پیدائش کے عالمی کیسوں میں تقریبا دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ زچگی کے دوران طبی پیچیدگیوں سے نمٹنے کی خاطر ’سی سیکشن‘ یعنی آپریشن اہم ثابت ہوتا ہے۔
تاہم غیر ضروری طور پر ایسے آپریشنز کی وجہ سے صحت عامہ کے شعبے میں قلیل اور طویل المدتی اثرات سے نمٹنے کی خاطر زیادہ رقوم درکار ہوتی ہیں۔
دی لینسیٹ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق دس تا پندرہ فیصد کیسوں میں سرجری کی ضرورت ہوتی ہے تاہم سن 2000 میں تقریبا بارہ فیصد سی سیکشن کیے گئے جبکہ سن 2015 تک ایسے آپریشنز کی شرح اکیس فیصد تک پہنچ گئی۔
عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے اعدادوشمار کے مطابق 169 ممالک میں ناہمواریاں نوٹ کی گئی ہیں۔ ساٹھ فیصد ممالک میں بچوں کی پیدائش کی خاطر آپریشن کیے گئے جبکہ پچیس فیصد ممالک میں ضرورت کے باوجود آپریشن نہیں کیے گئے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایسی خواتین جو مالی لحاظ سے بہتر ہیں، بچوں کی پیدائش کے لیے ان میں آپریشن کرانے کی شرح زیادہ ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ کچھ ممالک میں بچوں کی پیدائش کی خاطر سرجری کرانا دراصل ’فیشن ایبل‘ اور ’ماڈرن‘ ہونے کی علامت تصور کی جاتی ہے۔
اس تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایسے غیر ضروری آپریشنز ماؤں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں، اس لیے ان کو روکنے کی خاطر حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین کو سی سیکشن اور قدرتی طریقے سے بچے کی پیدائش کے حوالے سے زیادہ معلومات فراہم کرنا چاہییں تاکہ وہ اپنے لیے درست فیصلہ کر سکیں۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
اگلے بیس برسوں میں مسلمان مائیں سب سے زیادہ بچے جنم دیں گی
دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ بچے مسیحی مائیں جنم دیتی ہیں۔ لیکن امریکی ریسرچ سینٹر ’پیو‘ کے ایک تازہ ترین آبادیاتی جائزے کے مطابق آئندہ دو عشروں میں مسلمان خواتین سب سے زیادہ بچے پیدا کریں گی۔
تصویر: Reuters/Muhammad Hamed
مسیحی مائیں دوسرے نمبر پر
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق مسیحی باشندوں کی آبادی میں کمی کی ایک وجہ یورپ کے بعض ممالک میں شرحِ اموات کا شرحِ پیدائش سے زیادہ ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال جرمنی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگر عالمی آبادی میں تبدیلی کا یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو رواں صدی کے آخر تک دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد مسیحی عقیدے کے حامل انسانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Johnson
مسلم اور مسیحی آبادیوں میں شرحِ پیدائش میں فرق
پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں مذاہب کی آبادیوں میں شرح پیدائش کے لحاظ سے سن 2055 اور سن 2060 کے دوران 60 لاکھ تک کا فرق دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ سن 2060 تک مسلمان دنیا کی مجموعی آبادی کا 31 فیصد جبکہ مسیحی 32 فیصد ہوں گے۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
سب سے بڑی مذہبی برادری
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ جائزہ اس کے سن 2015 میں شائع کیے گئے ایک تحقیقی جائزے ہی کی طرز پر ہے۔ سن 2015 میں اس مرکز نے کہا تھا کہ آنے والے عشروں میں مسلم آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی بڑی مذہبی برادری بن جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Nagori
سب سے زیادہ بچے
سن 2010 سے سن 2015 کے درمیان دنیا بھر میں جتنے بچے پیدا ہوئے، اُن میں سے 31 فیصد بچوں نے مسلمان گھرانوں میں جنم لیا تھا۔ دو سال قبل پیو سینٹر کے ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ سن 2050 تک مسلمانوں اور مسیحیوں تعداد تقریباﹰ برابر ہو جائے گی۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
دیگر مذاہب آبادی کی دوڑ میں پیچھے
ہندوؤں اور یہودیوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکار انسانوں کی کُل تعداد میں سن 2060 تک اضافہ تو ہو گا تاہم یہ عالمی آبادی میں تیزی سے پھیلنے والے مذاہب کے افراد کی تعداد میں اضافے کے تناسب سے کم ہو گا۔