1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آچے میں گورنر کے انتخابات، زینی عبداللہ ’فاتح‘

10 اپریل 2012

انڈونیشیا کے صوبہ آچے میں پیر کو گورنر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق سابق وزیر خارجہ زینی عبداللہ کو پچاس فیصد سے زائد ووٹ ملے ہیں جبکہ آچے کے سابق گورنر ایرواندی یوسف دوسرے نمبر پر ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

آچے میں پیر کو ہونے والی ووٹنگ کے ابتدائی نتائج پولنگ ایجنسی انڈونیشیا سرکل انسٹی ٹیوٹ نے جاری کیے ہیں۔ اس کے مطابق زینی عبداللہ کو 54.4 فیصد سے زائد ووٹ ملے ہیں جبکہ ایرواندی یوسف کو 29.9 فیصد۔

انڈونیشیئن سروے انسٹی ٹیوٹ کا بھی کہنا ہے کہ ابتدائی نتائج کے مطابق عبداللہ فاتح ہو سکتے ہیں۔ آچے انڈیپینڈنٹ الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی نتائج کا اعلان آئندہ ہفتے متوقع ہے۔

عبداللہ سابق باغی گروپ فری آچے موومنٹ (جی اے ایم) کی جانب سے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ یوسف نے فروری میں مدت ختم ہونے پر گورنر کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا ہے۔

دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر انتخابی عمل کو متاثر کرنے کے لیے پرتشدد کارروائیوں کا الزام لگایا ہے۔ یوسف کا کہنا ہے کہ ان کی انتخابی ٹیم کی متعدد گاڑیوں کو نامعلوم حملہ آوروں نے نذرِ آتش کیا۔

گورنر کے عہدے کے لیے آچے میں ہونے والے یہ دوسرے انتخابات تھے جن میں پانچ امیدواروں نے حصہ لیاتصویر: picture-alliance/dpa

انہوں نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’’فیلڈ میں رکاوٹیں ہیں، دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ لوگ خوفزدہ ہیں۔ لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے، اغوا کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ لوگوں کو گھروں پر جا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو جنگ ہو گی۔‘‘

آچے میں گورنر کے عہدے کے لیے انتخابی مہم پرتشدد رہی ہے، جس کے دوران 13 افراد ہلاک ہوئے۔ ووٹنگ کے دِن سکیورٹی انتظامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے آچے کے پولیس سربراہ انسپکٹر جنرل اسکندر حسن نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا: ’’ہم گزشتہ رات سے ان علاقوں میں گشت کر رہے ہیں جہاں صورتِ حال نازک ہے۔ ہمیں فوج کی مدد بھی حاصل ہے۔‘‘

آچے انڈونیشیا کے شمال مغرب میں نیم خودمختار علاقہ ہے۔ یہ صوبہ گیس کی قدرتی دولت سے مالا مال ہے اور ابھی تک آٹھ برس قبل سونامی کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے اثرات سے نکل رہا ہے۔ دوہزار پانچ میں آنے والی اس قدرتی آفت کے بعد ہی حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی ختم کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔

ng/ab (AFP, DPA)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں