آکسفورڈ کے اسلامی علوم کے پروفیسر ریپ کے الزام میں حراست میں
مقبول ملک روئٹرز
31 جنوری 2018
برطانیہ کی مشہو زمانہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامی علوم کے ایک معروف پروفیسر کو ریپ کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پیرس میں عدالتی ذرائع نے بتایا کہ پروفیسر طارق رمضان اس وقت فرانسیسی پولیس کی حراست میں ہیں۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے بدھ اکتیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پروفیسر طارق رمضان کو، جو سوئٹزرلینڈ کے شہری ہیں، ان الزامات کے بعد حراست میں لیا گیا کہ وہ مبینہ طور پر دو واقعات میں جنسی زیادتی کے مرتکب ہوئے تھے۔
طارق رمضان برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے ایک پروفیسر ہیں اور فرانسیسی پولیس نے ان کو تحویل میں لے کر ان کے خلاف ابتدائی تفتیش جنسی زیادتی کی دو مختلف شکایات موصول ہونے کے بعد شروع کی۔
روئٹرز نے فرانسیسی عدالتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس وقت پروفیسر طارق رمضان کے خلاف تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہیں۔ طارق رمضان نہ صرف ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں بلکہ وہ اس وجہ سے بھی خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں کہ وہ مصر میں اخوان المسلمون نامی اسلامی تحریک کی بنیاد رکھنے والے ماضی کے معروف اسکالر حسن البنا کے پوتے بھی ہیں۔
مرسی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، سینکڑوں ہلاک
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کی ہے، اخوان المسلمون کے مطابق ان کے سینکڑوں کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
مصر میں سکیورٹی فورسز اور سابق صدر محمد مُرسی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 525 سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اس کے برعکس اخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کریک ڈاؤن کے دوران ان کے دو ہزار سے زائد حامی مارے گئے ہیں۔
تصویر: Mosaab El-Shamy/AFP/Getty Images
دریں اثناء ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے مصری سکیورٹی فورسز کی طرف سے اس کریک ڈاؤن کو ’قتل عام‘ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے فوری طور پر عملی ردعمل ظاہر کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: Reuters
محمد مرسی کی حامی جماعت اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کے خاتمے تک اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے انہوں نے ہمیشہ عدم تشدد اور امن کی بات کی ہے۔
تصویر: Reuters
کریک ڈاؤن کے دوران احتجاجی کیمپ کے نزدیک واقع مسجد بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ دریں اثناء مصری فوج کے حمایت یافتہ عبوری وزیر اعظم نے معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کا دفاع کیا ہے۔
تصویر: Reuters
مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے اسلام پسند حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے کارروائی کی ہے۔ اخوان المسلمون کے مطابق ان کے سینکڑوں کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد مرسی کے حامی کئی ہفتوں سے دارالحکومت میں احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ معزول صدر کو بحال کیا جائے۔ قاہرہ کے شمال مشرق میں سب سے بڑے احتجاجی کیمپ میں مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق آج ملکی فوج تمام احتجاجی کیمپ ختم کروانے کی کوشش کرے گی۔ دوسری طرف مصر پولیس نے اخوان المسلمون کے اہم رہنما محمد البلتاجی کو گرفتار کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اخوان المسلمون کے کارکن پولیس کی کارروائی سے متاثر ہونے والی ایک خاتون کو پانی پلا رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کے مطابق ہلاکتوں کے علاوہ پانچ ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
احتجاجی کیمپوں کے خلاف عبوری حکومتی کارروائی کے آغاز کے بعد اخوان المسلمون کی جانب سے مصری عوام سے اپیل بھی کی گئی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اخوان المسلمون کے ترجمان جہاد الحداد کا کہنا تھا کہ یہ احتجاجی کیمپوں کو منتشر کرنے کا عمل نہیں بلکہ فوجی بغاوت کے بعد اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی ایک خونی کارروائی ہے۔
تصویر: Reuters
رابعہ العدویہ مسجد کے قریب ایک مسجد کو مبینہ طور پر عارضی مردہ خانے کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس میں کُل 43 لاشیں پہنچائی گئی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام مرد تھے اور ان کو گولیاں لگی ہوئی تھیں۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
وزارت داخلہ کے مطابق النہضہ اسکوائر کا علاقہ اب مکمل طور پر احتجاجیوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور پوری طرح حکومتی سکیورٹی کے کنٹرول میں ہے۔ اس چوک میں نصب تمام خیمے بھی ہٹا دیے گئے ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق اس کیمپ سے درجنوں افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق علاقے کے مکینوں نے بھی سکیورٹی اہلکاروں کی معاونت کی ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
قاہرہ میں معزول صدر کے حامیوں نے دو احتجاجی کیمپ قائم کر رکھے تھے۔ ان میں سے ایک قاہرہ یونیورسٹی کے باہر تھا جو قدرے چھوٹا اور اپنے حجم کے اعتبار سے بڑا کیمپ رابعہ العدویہ مسجد کے باہر تھا۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
سکیورٹی آپریشن کے شروع ہونے پر فوج نے سینکڑوں ریت کے تھیلوں کو بھاری ٹرکوں پر لاد دیا تھا۔ اس کے علاوہ مظاہرین کی جانب سے تیار کردہ اینٹوں کی حفاظتی دیواروں کو بھی توڑ دیا۔ اس کام کے لیے فوج نے بلڈوزر کا استعمال کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپی یونین سمیت، ترکی، ایران، قطر اور برطانیہ نے احتجاجی کیمپوں پر سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن اور ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: KHALED DESOUKI/AFP/Getty Images
فوج کی مدد سے پولیس نے اس آپریشن کا آغاز بدھ کی صبح کیا۔ اگلے تین گھنٹوں کی بھرپور کارروائی کے بعد دونوں کیمپوں کو تقریباً خالی کرا لیا گیا اور احتجاجی مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
17 تصاویر1 | 17
پروفیسر طارق رمضان گزشتہ برس نومبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنے فرائض کی ادائیگی سے اس وقت رخصت پر چلے گئے تھے جب فرانس میں دو خواتین نے ان کے خلاف یہ شکایات درج کرا دی تھیں کہ یہ سوئس مسلم پروفیسر مبینہ طور پر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب ہوئے تھے۔
خود پروفیسر طارق رمضان اپنے خلاف ان الزامات کی سرے سے تردید کرتے ہیں اور انہوں نے ہندا عیاری نامی ایک مصنفہ کے خلاف ہتک عزت کی ایک قانونی شکایت بھی درج کرا رکھی ہے۔ ہندا عیاری ان دو خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے طارق رمضان پر مبینہ ریپ کے الزامات لگا رکھے ہیں۔
ہندا عیاری ایک مصنفہ ہونے کے علاوہ حقوق نسواں کی ایک معروف کارکن بھی ہیں جو فرانس میں اسلام کے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ یا خود ان کے بقول ’اسلام ازم‘ کے خلاف بھی کافی سرگرم ہیں۔
کیا زینب کو انصاف ملے گا ؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سات سالہ بچی زینب کے ریپ اور قتل کے بعد اُس کی لاش ملنے کے بعد سے حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ڈنڈا بردار مظاہرین شدید احتجاج کر رہے ہیں۔
تصویر: Twitter
مظاہروں کا سلسلہ
قصور کی رہائشی بچی زینب اتوار سے لاپتہ تھی اور اس کی لاش منگل کو ایک کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔ لاش ملنے کے بعد شہر میں پولیس اور حکومتی اداروں کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ahmed
دیگر شہروں میں بھی مظاہرے
نہ صرف قصور بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اس بچی کے حق میں احتجاج مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ahmed
کراچی میں مظاہرہ
کراچی میں سماجی کارکن جبران ناصر اور سول سوسائٹی کے اراکین نے زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ۔
تصویر: Faria Sahar
مجرم کو پکڑا جائے
مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد زینب کے مجرم کو پکڑا جائے۔
تصویر: Faria Sahar
زینب کی لاش
زینب گزشتہ ہفتے اُس وقت لاپتہ ہو گئی تھیں، جب وہ قریب کے ایک گھر میں قرآن کا درس لینے جا رہی تھیں۔ زینب کی لاش منگل کے روز کوڑے کے ایک ڈھیر میں پڑی ملی تھی۔