پچیس سالہ فرشتہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کی رہائشی ہیں۔ گزشتہ برس یہ دنیا کی بہترین درس گاہوں میں شمار آکسفورڈ یونیورسٹی سے ’ماسٹرز ان پبلک ڈپلومسی‘ کی ڈگری لے کر اپنے وطن واپس پہنچی ہے۔
اشتہار
اس نوجوان طالبہ نے برطانیہ میں تعلیم انتہائی معتبر تصور کی جانے والی ’شیونگ اسکالرشپ ‘ کے ذریعے حاصل کی تھی۔ فرشتہ کا شمار ان چند پڑھے لکھے افغان شہریوں میں ہوتا ہے، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کئی دہائیوں سے جنگ سے نبرد آزما ملک افغانستان میں رہنا چاہتے ہیں۔ کابل سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے فرشتہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’میری تعلیم سرکاری پالیسی سازی میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں افغانستان میں رہ کر اس ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
گزشتہ برس اپنی تعلیم مکمل کر کے کابل پہنچنے والی فرشتہ نے ایک غیر سرکاری تنظیم کا آغاز کیا ہے۔ اس تنظیم کا مقصد نوجوان افغان شہریوں کی تخیلقی صلاحیتیں ابھارنا اور انہیں ناقدانہ سوچ کی طرف مائل کرنا ہے۔ اسی ادارے کا ایک مقصد افغان بچوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنا بھی ہے۔ فرشتہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہر روز ایک موبائل لائبریری کو شہر کے مختلف حصوں میں لے جاتی ہے۔ جہاں مقامی بچے اس بس لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔ فرشتہ انہیں کہانیاں بھی سناتی ہیں۔
فریشتے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ابھی ہم نے کام کا آغاز کیا ہے۔ اس وقت مقصد زیادہ جگہ پہنچنے کے بجائے اپنے معیار کو برقرار رکھنا ہے۔ ہم ایک علاقے میں ہر دوسرے دن اپنی موبائل لائبریری کو لے کر جاتے ہیں۔‘‘
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے وقت فرشتہ اور ان کا خاندان 1996 میں بطور پناہ گزین پاکستان چلا گیا تھا۔ کچھ سال پاکستان میں گزارنے کے بعد اس افغان لڑکی کا خاندان سن 2002 میں واپس کابل چلا گیا تھا۔
بطور مہاجر زندگی گزارنے کا تجربہ رکھنے والی فرشتہ کا کہنا ہے،’’ افغانستان میں حالات ساز گر نہیں ہیں۔ اس لیے میں ان لوگوں کو سمجھ سکتی ہوں جو ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں لیکن میں کم از کم ابھی افغانستان کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔‘‘
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.