بیجنگ نے امریکا کو یہ وارننگ ایک ایسے وقت دی ہے جب خطے میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ادھر امریکا تائیوان سے اپنے رشتے بھی مسلسل مضبوط کر تا جار ہا ہے۔
اشتہار
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان جاؤ لیجان نے 13 اپریل منگل کے روز زور دے کر کہا کہ امریکا، ''تائیوان کے مسئلے پر آگ سے نہ کھیلے اور سرکاری سطح پر تائیوان سے روابط میں اضافے کو فوری طور بند کرے۔''
انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ امریکا کو، ''تائیوان کے مسئلے پر تائیوان کی آزاد پسند قوتوں کو غلط اشارے نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس سے چین اور امریکا کے تعلقات کافی متاثر ہوتے ہیں اور پورے آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔''
چین نے جزیرہ تائیوان کے آس پاس سکیورٹی کا دائرہ اس قدر بڑھا دیا ہیکہ تقریبا ًہر روز اس کی فضائیہ تائیوان کے فضائی حدود کی پامالی کرتی ہے۔ اسی تناظر میں امریکی محکمہ خارجہ نے گزشتہ جمعے کو خود مختار ریاست تائیوان کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی بات کہی تھی۔
چین کی بڑھتی عسکری قوت
منگل کے روز تائیوان کی وزارت دفاع نے اپنی فضائی دفاعی حدود میں چینی جنگی طیاروں کی جانب سے خلاف ورزی کا ایک نیا واقعہ درج کیا تھا جبکہ پیر کے روز تقریبا ً25 طیاروں نے اس کی خلاف ورزی کی تھی جس میں بعض جیٹ طیارے جوہری بم لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔
تائیوان میں چین کا قدیم طریقہ علاج ختم ہوتا جا رہا ہے
01:34
اتوار کے روز امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلینکن نے تائیوان کے خلاف چین کی جانب سے جارحانہ کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اس کے جواب میں چین نے کہا تھا کہ حکومت نے اپنی خود مختاری کے دفاع کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔ ''ایک ارب چالیس لاکھ چینی لوگوں کے مخالف سمت میں کھڑے نہ ہوں۔''
تائیوان کا مسئلہ کیا ہے؟
سن 1949 میں چین میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی حکمراں کمیونسٹ پارٹی نے تائیوان کی خود مختاری کو تسلیم نہیں کیا ہے، جہاں جمہوری طرز کی حکومت ہے۔
سن 70 کے عشرے میں جب چین اور امریکا نے پہلی بار سفارتی روابط قائم کیے تو اس وقت امریکا نے تائیوان سے صرف ثقافتی اور معاشی تعلقات قائم کرنے کا عہد کیا تھا اور سرکاری سطح پر تائیوان سے روابط نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
امن کے لیے دھماکے
منفرد یا روز مرہ کا معمول، خوبصورت یا خوف زدہ کر دینے والا۔ اس کے علاوہ زیادہ تر انسان اور جانور : ہم روزانہ اس دنیا کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کی چند خوبصورت تصاویر۔
تصویر: Reuters/The Defense Ministry/Yonhap
دھماکے اور قیام امن
شمالی اور جنوبی کوریا کی مشترکہ سرحد پر ابھی بھی کئی مقامات پر انتہائی بھاری ہتیھار نصب ہیں۔ تاہم اب یہ دونوں ممالک دشمنی ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اب مشترکہ سرحد پر قائم دو سو سے زائد حفاظتی چوکیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ شمالی کوریا نے مزید نو چوکیوں کو دھماکے سے اڑا دیا۔
تصویر: Reuters/The Defense Ministry/Yonhap
شعلے اگلتی ہوئی زمین
گوئٹے مالا میں فوئیگو نامی آتش فشان راکھ اور شعلے اگل رہا ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہ بہت ہی خوبصورت منظر دکھائی دیتا ہے۔ جون میں اس آتش فشان کے پھٹنے سے تقریباً دو سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Ordonez
خشک سالی اور گرمی کے بعد کہر
جرمنی میں شدید گرمی اور ایک سنہرے موسم خزاں کے بعد ملک بھر میں کہر چھانا شروع ہو گئی ہے۔ تاہم دریاؤں میں پانی کی کم سطح کی وجہ سے موسم میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع کم ہی ہے یعنی بہت زیادہ بارشیں یا برف باری کا امکان کم ہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.-C. Dittrich
ہمت والے ہی ایسے بال کٹواتے ہیں
یہ تصویر فانپائی نامی ایک چینی گاؤں کی ہے۔ اس علاقے کے قدیمی باشندے ابھی بھی روایتی انداز میں بال کٹواتے ہیں۔ یہاں پر کمان نما چھری باک کاٹنے کے لیے ابھی بھی استعمال ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/XinHua/P. Deyu
اونچا، بہت ہی اونچا
میکسیکو کے شہر لیون میں آج کل ہاٹ ایئر غباروں کا میلہ جاری ہے۔ دنیا کے تیئس ممالک کے دو سو زائد ہاٹ ایئر بیلون فضا میں بلند ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس فیسٹیول میں پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/NOTIMEX/I. Santiago
کشتی میں اسکول
یہ تصویر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ہے، جہاں سری نگر سے تعلق رکھنے والے تین بچے اسکول سے اپنے گھر واپس جا رہے ہیں۔ ڈل جھیل پر ایک اس چھوٹی سی کشتی کو چلانا کوئی آسان کام نہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
خوبصورت گلابی
گزشتہ دنوں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں گلابی رنگ کے اس ہیرے کی پچاس ملین ڈالر میں نیلامی ہوئی، جو ایک ریکارڈ ہے۔ ’پنک لیگیسی‘ نامی اس ہیرے کو معروف امریکی جوہری ہیری ونسٹن نے خریدا۔ یہ ہیرا ایک سو قبل جنوبی افریقہ میں دریافت ہوا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Balibouse
اوشی پلاؤ
پلاؤ،پیلاو یا پلوو کو عام طور پر ایک مشرقی کھانا تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سبزی، گوشت اور مچھلی کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر اشیاء کے ساتھ ملا کر پکایا جاتا ہے۔ یہ تصویر تاجکستان کی ہے اور یہ اس ملک کا معروف اوشی پلاؤ ہے۔ اوشی پلاؤ کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ بھی حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/TASS/N. Kalandarov
سات سالہ جوناتھن امریکا کے سفر پر
سات سالہ جوناتھن میکسکیو کے ایک مہاجر کیمپ میں سستانے کے لیے رکا ہوا ہے۔ تاہم جوناتھن رودریگیز کی منزل امریکا ہے۔ وہ آنکھوں میں ایک بہتر زندگی کا خواب سجائے امریکا جانا چاہتا ہے۔ اس کا قافلہ دو سو افراد پر مشتمل ہے۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
انسانوں کے خلاف خار دار تار
وسطی امریکی ممالک کے تقریباً سترہ سو افراد امریکا کی جانب رواں دواں ہیں۔ اس کے علاوہ ہنڈوراس، گوئٹے مالا اور ایل سلواڈور کے مزید ہزاروں افراد بھی غربت اور تشدد سے تنگ آ کر میکسیکو کے راستے امریکی سرحد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ تاہم امریکا میں ان مہاجرین کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ ان کے استقبال کے لیے امریکی فوجی میکسیکو کی سرحد پر خار دار تار کی باڑ نصب کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/E. Gay
امن کے شعلے
تائیوان میں ’وانگ یہ‘ فیسٹیول کے آٹھویں اور آخری روز عقیدت مند کاغذ اور لکڑی سے بنے ہوئے ایک بحری جہاز کو نذر آتش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس طرح دنیا سے بدی، بیماری اور بدقسمتی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور پھر صرف انسانیت اور امن باقی بچ جاتا ہے۔ ایک ہزار سال پرانا یہ فیسٹیول ہر تین سال بعد منایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
11 تصاویر1 | 11
چین کی ون چائنا پالیسی کے تحت جو ملک بھی چین کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنا چاہیے اسے تائیوان کے ساتھ سفارتی روابط بحال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گرچہ امریکا بھی تائیوان کی آزادی تسلیم نہیں کرتا تاہم وہ اس کا سب سے بڑا حامی اور اسے سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والا ملک بھی ہے۔ ایک معاہدے کے تحت امریکا پر تائیوان کے دفاع کے لیے ساز و سامان مہیا کرنے بھی کی ذمہ داری بھی ہے۔
جاپان اور جرمنی نے چین کے ساتھ فوجی تعاون میں اضافہ کیا
گزشتہ منگل کے روز جرمنی اور جاپان نے چین کے ساتھ سکیورٹی تعاون میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس اور وزیر دفاع اینی گریٹ کرامپ نے اس سلسلے میں اپنے جاپانی ہم مناصب سے آن لائن میٹنگ کے دوران موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
چین اور تائیوان: بظاہر دو بہترین دشمن؟
چینی صدر شی جن پنگ نے زور دیا ہے کہ چین اور تائیوان کا ’پرامن اتحاد‘ ہونا چاہیے، جس پر تائیوان کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ تائیوان کا معاملہ ہے کیا؟ آئیے ان تصاویر کے ذریعے اسے ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
قبضے اور آزادی کی کشمکش
دوسری عالمی جنگ کے بعد ماؤزے تنگ نے کیمونسٹ پارٹی آف چائنا کے پرچم تلے سیاسی حریف چیانگ کائی شیک سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی۔ کومنتانگ پارٹی کے سربراہ کائی شیک اس لڑائی میں ناکام ہوئے اور ایک چھوٹے سے جزیرے تائیوان پر فرار ہو گئے۔ تب تائیوان کا جزیرہ اطراف کے مابین پراپیگنڈے کا مرکز بن گیا۔ کیمونسٹ پارٹی تائیوان کو ’آزاد‘ کرانا چاہتی تھی جبکہ کومنتانگ ’مین لینڈ چین پر دوبارہ قبضہ‘ کرنا چاہتی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہم وطنوں کے لیے پیغامات
پچاس کی دہائی میں کیمونسٹ پارٹی آف چائنا نے تائیوان میں سکونت پذیر چینی ہم وطنوں کو چار پیغامات ارسال کیے۔ یہی پیغامات دراصل چین کی تائیوان سے متعلق ریاستی پالیسی کی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں۔ تب بیجنگ نے تائیوان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’سامراجی طاقت‘ امریکا سے گٹھ جوڑ نہ کرے۔ اس دور میں اطراف کے ایک دوسرے پر توپ خانے سے حملے بھی جاری رہے۔
تصویر: Imago/Zuma/Keystone
اقوام متحدہ میں تائی پے کی جگہ بیجنگ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1971 میں تسلیم کر لیا کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ہی اس ملک کی جائز نمائندہ حکومت ہے۔ یوں جمہوریہ چین ROC (تائیوان) کو اقوام متحدہ کے تمام اداروں سے بےدخل کر دیا گیا۔ اس تصویر میں جمہوریہ چین کہلانے والے تائیوان کے اس دور کے وزیر خارجہ چاؤ شو کائی اور سفیر لیو چی کی پریشانی اور مایوسی نمایاں ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA/Keystone
تائیوان کی نئی پالیسی
چین کی طرف سے تائیوان کو آخری پیغام یکم جنوری سن 1979 کو ارسال کیا گیا تھا۔ تب کیمونسٹ پارٹی کے رہنما دینگ سیاؤپنگ نے جنگی کارروائیوں کو ترک کر دیا تھا اور تائیوان کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تائیوان کے ساتھ پرامن اتحاد کی کوشش کریں گے۔ تاہم تائیوان کی طرف سے عالمی سطح پر چین کی نمائندگی کے حق کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
’ون چائنا‘ پالیسی
چین اور امریکا کی قربت کے باعث بیجنگ حکومت کی تائیوان سے متعلق پالیسی میں جدت پیدا ہوئی۔ یکم جنوری سن 1979 کو ہی چین اور امریکا کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ تب امریکی صدر جمی کارٹر نے تسلیم کر لیا کہ پورے چین کی نمائندہ اور جائز حکومت بیجنگ میں ہی ہے۔ تب تائیوان میں امریکی سفارتخانے کو ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
ایک چین دو نظام
امریکی صدر جمی کارٹر سے ملاقات سے قبل ہی چینی رہنما دینگ سیاؤپنگ نے ’ایک ملک اور دو نظام‘ کی پالیسی متعارف کرائی، جس میں تائیوان کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنا سوشل سسٹم برقرار رکھے اور چین کے ساتھ اتحاد کے بعد بھی بے شک اس پر عمل پیرا رہے۔ تاہم اس وقت کے تائیوانی صدر چیانگ چینگ کاؤ فوری طور پر اس تجویز سے متفق نہ ہوئے۔ لیکن پھر سن 1987 میں انہوں نے ’بہتر نظام کے لیے ایک چین‘ کے اصول کی حمایت کر دی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
آزادی کی تحریک
سن 1986 میں تائیوان کی پہلی اپوزیشن سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP معرض وجود میں آئی۔ سن 1991 میں اس اپوزیشن پارٹی نے تائیوان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ اس پارٹی کے منشور میں شامل تھا کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے، جو چین کا حصہ نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Yeh
’سن بانوے کا اتفاق‘
سن 1992 میں تائی پے اور بیجنگ کے مابین ہانگ کانگ میں ایک غیر رسمی ملاقات میں باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ طے پایا۔ ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے نام سے مشہور اس معاہدے کے تحت اطراف نے ایک چین کی پالیسی پر اتفاق تو کر لیا لیکن اس تناظر میں دونوں کی تشریحات میں فرق نمایاں رہا۔ اس کے ایک سال بعد دونوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندوں وانگ (دائیں) اور کو نے سنگاپور میں ایک اور ملاقات کی تھی۔
تصویر: Imago/Xinhua
باہمی تعلقات
تائیوان کے اولین جمہوری صدر اور KMT کے رہنما لی ٹینگ ہوئی نے سن 1995 میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان سے باہر کسی بھی ملک سے باہمی تعلقات کی نوعیت ایسی ہو گی جیسی کہ دو ریاستوں کے مابین ہوتی ہے۔ ان کا یہ بیان بیجنگ سے آزادی کے اعلان سے انتہائی قریب تصور کیا گیا تھا۔
تصویر: Academia Historica Taiwan
تائیوان میں اپوزیشن کی جیت
تائیوان کی اپوزیشن ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP نے سن 2000 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ تب تائیوان میں ہی پیدا ہونے والے شین شوئی بیَان صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، جن کا مین لینڈ چین کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ یوں تائیوان میں کومنتانگ پارٹی کی پچپن سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس سیاسی تبدیلی کا مطلب یہ لیا گیا کہ اب تائیوان کا چین سے کچھ لینا دینا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Jerome Favre
’ایک چین‘ کی مختلف تشریحات
سن 2000 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد کومنتانگ پارٹی نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے حوالے سے اپنے نظریات میں ترمیم کر لی۔ اسی سبب ’ون چائنا پالیسی کی مختلف تشریحات‘ سے متعلق یہ معاہدہ تائیوان میں آج بھی زیربحث ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سن انیس سو بانوے میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی باضابطہ سرکاری موقف واضح نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Imago/ZumaPress
کیمونسٹ پارٹی اور کومنتانگ پارٹی کے رابطے
بیجنگ حکومت ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کو تائیوان کے ساتھ تعلقات کی سیاسی اساس قرار دیتی ہے۔ چین میں کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اطراف کے مابین ہوئی پہلی سمٹ میں چینی صدر ہو جن تاؤ (دائیں) اور لیان زہان نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کی بھرپور حمایت کی اور ’ون چائنا پالیسی‘ کو بنیادی اصول تسلیم کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
’سمت درست ہے‘
تائیوان میں سن 2008 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد کومنتانگ پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ گئی۔ سن 2009 میں تائیوانی صدر ما ینگ جیو نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تائیوان امن اور سکیورٹی کی ضمانت ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تائی پے اس مقصد کے حصول کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے اور بنیادی طور پر ’ہماری سمت درست ہے‘۔
تصویر: GIO
تائیوان کے لیے سب سے بڑا چیلنج
سن 2016 کے صدارتی الیکشن میں سائی انگ وین کو کامیابی ملی تو تائیوان (جمہوریہ چین) میں آزادی کی تحریک میں ایک نیا جوش پیدا ہوا۔ سائی انگ وین ’سن بانوے کے اتفاق‘ کو متنازعہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں دراصل یہ ڈیل تائیوان میں چینی مداخلت کا باعث ہے۔ سائی انگ وین نے چینی صدر کی طرف سے تائیوان کے چین ساتھ اتحاد کے بیان پر بھی بہت سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔