آیا صوفیہ میں مسیحی مذہبی علامات آئندہ بھی موجود رہیں گی
14 جولائی 2020
ترک مذہبی مقتدرہ ’دیانت‘ کے مطابق آیا صوفیہ میں موجود ماضی کی مسیحی مذہبی علامات آئندہ بھی وہیں رہیں گی اور انہیں ہٹایا نہیں جائے گا۔ استنبول کا یہ صدیوں پرانا کلیسا اور پھر میوزیم حال ہی میں مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔
اشتہار
استنبول سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ترکی میں مذہبی امور کی نگران قومی مقتدرہ، جو 'دیانت‘ کہلاتی ہے، نے منگل چودہ جولائی کو اعلان کیا کہ اس شہر میں واقع شہرہ آفاق اور صدیوں پرانی آیا صوفیہ کی عمارت میں موجود اس دور کی مسیحی مذہبی علامات، جب وہ ایک کلیسا تھی، آئندہ بھی وہاں موجود رہیں گی۔
ساتھ ہی 'دیانت‘ نے یہ اعلان بھی کیا کہ آیا صوفیہ میں نمازوں کے اوقات کے علاوہ مہمانوں کو یہ اجازت بھی ہو گی کہ وہ اندر جا کر اس عمارت کی سیر کر سکیں۔ 'دیانت‘ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کی عالمی ثقافتی میراث کی فہرست میں شامل اس عمارت میں موجود کوئی بھی مسیحی مذہبی علامت یا تاریخی پینٹنگز وہاں سے ہٹائی نہیں جائیں گی۔
مسیحی مذہبی علامات ڈھانپ دی جائیں گی
آیا صوفیہ میں ایسی مذہبی علامات کو آئندہ نماز کے وقت یا تو پردے لگا کر ڈھانپ دیا جائے گا یا پھر داخلی طور پر روشنی کا انتظام اس طرح کیا جائے گا کہ یہ علامات براہ راست اور بالکل سامنے نظر آنے والی اشیاء اور دیواروں پر پینٹنگز کے طور پر نہیں دیکھی جا سکیں گی۔ یہ بات تاہم واضح نہیں کہ ترک حکام یہ کام کس طرح کریں گے۔
استنبول میں واقع آیا صوفیہ کی عمارت 1453ء تک بازنطینی دور کا مرکزی کلیسا تھی۔ اسے ترک عثمانی دور میں استنبول کی فتح کے بعد مسلمانوں کی مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔ آیا صوفیہ کی مسجد کے طور پر حیثیت 1934ء تک قائم رہی تھی، جس کے بعد چند روز پہلے تک اس تاریخی عمارت کی حیثیت ایک میوزیم کی تھی۔
عدالتی فیصلہ
ترکی کی ایک اعلیٰ عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد گزشتہ ہفتے ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ چھٹی صدی عیسوی میں تعمیر کردہ اس عمارت کو جلد ہی ایک مسجد کے طور پر دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ عدالت نے 1934ء میں کیے گئے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا، جس کے تحت تب اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
مسجد کے طور پر آیا صوفیہ میں قدیمی مسیحی مذہبی علامات کی موجودگی کے حوالے سے بہت سے مسلم علماء کے مطابق ایک اہم بات یہ ہے کہ کسی مسلم عبادت گاہ میں کوئی مسجمے، جانوروں کی تصاویر یا انسانی شبیہات کی عکاسی کرنے والی پینٹنگز نہیں ہو سکتیں۔
صدر ایردوآن کا موقف
ترک عدالت کے اس بارے میں فیصلے اور پھر صدر ایردوآن کی طرف سے کیے گئے اعلان پر دنیا کے کئی ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے افسوس اور ناخوشی کا اظہار کیا تھا۔ ان میں امریکا، یورپی یونین، روس، یونان اور یونیسکو نمایاں تھے۔
اس سلسلے میں صدر ایردوآن کا موقف یہ ہے کہ آیا صوفیہ میں آئندہ کسی بھی مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھنے والے مہمان مفت داخل ہو سکیں گے اور یہ کہ آیا صوفیہ سے متعلق ترک عدالت اور پھر حکومتی فیصلے کا تمام غیر ملکی مبصرین کو احترام کرنا چاہیے۔
کمال اتاترک کی قائم کردہ جدید ترک جمہوریہ میں استنبول کی یہ صدیوں پرانی عمارت عشروں تک سیکولرزم کی بہت بڑی علامت رہی تھی۔
م م / ا ا (ڈی پی اے، روئٹرز)
استنبول، مذہبی تہذیب اور سیکیولر روایات کا امتزاج
یورپ اور ترکی کے سیاسی تنازعات کے باوجود ان میں چند مشترکہ ثقافتی روایات پائی جاتی ہیں۔ پندرہ ملین رہائشیوں کا شہراستنبول جغرافیائی حوالے سے دو برِاعظموں میں بٹا ہوا ہے۔ ثقافتی تضادات کے شہر، استنبول کی تصاویری جھلکیاں
تصویر: Rena Effendi
استنبول کی روح میں یورپ بسا ہوا ہے
ترکی کا شہر استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ استنبول میں روایتی اور جدید طرز زندگی کے عنصر نظر آتے ہیں۔ تاہم مذہبی اور سیکولر طرزِ زندگی اس شہر کی زینت ہے۔ کثیر الثقافتی روایات کا جادو شہرِ استنبول کی روح سے جڑا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
دو ہزارسال قدیم شہر
استنبول کی تاریخ قریب دو ہزار چھ سو سال پر محیط ہے۔ آج بھی اس شہر میں تاریخ کے ان ادوار کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ماضی میں کئی طاقتور حکومتوں نے استنبول کے لیے جنگیں لڑیں، خواہ وہ ایرانی ہوں کہ یونانی، رومی سلطنت ہو کہ سلطنتِ عثمانیہ۔ جیسا کہ قسطنطنیہ سلطنتِ عثمانیہ کا مرکز رہنے سے قبل ’بازنطین‘ کا مرکز بھی رہا۔ بعد ازاں سن 1930 میں پہلی مرتبہ ترکی کے اس شہر کو استنبول کا نام دیا گیا۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول، دو مختلف ثقافتوں کے درمیان
آبنائے باسفورس کو استنبول کی ’نیلی روح‘ کہا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس ترکی کو ایشیائی حصے سے جدا کرکے یورپی حصے میں شامل کرتی ہے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ہزاروں مسافر روزانہ یہ سمندری پٹی عبور کر کے دو براعظموں کے درمیاں سفر طے کرتے ہیں۔ مسافر تقریبا بیس منٹ میں یورپی علاقے ’کراکوئی‘ سے ایشیائی علاقے ’کاڈیکوئی‘ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
قدیم قسطنطنیہ کا ’غلاطہ پل‘
غلاطہ پل ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے۔ یہاں لوگ بحری جہازوں کے دلکش مناظر دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ طویل قطاروں میں کھڑے لوگ ڈوری کانٹے سے مَچھلی پَکَڑنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ یہ سیاحتی مقام بھی ہے، یہاں مکئی فروش، جوتے چمکانے والے اور دیگر چیزیں فروخت کرتے ہوئے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سن 1845 میں پہلی مرتبہ یہ پل قائم کیا گیا تھا، تب استنبول کو قسطنطنیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تصویر: Rena Effendi
’یورپ ایک احساس ہے‘
میرا نام فیفکی ہے، ایک مچھلی پکڑنے والے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں خود کو یورپی شہری سمجھتا ہوں۔ ہم زیادہ آزادی کے خواہش مند ہیں لہٰذا ترکی اور یورپ کو ایک ساتھ ملنا چاہیے۔ فیفکی ریٹائرڈ ہوچکا ہے اورمچھلیاں پکڑنے کا شغف رکھتا ہے۔ تاہم فیفکی نے بتایا کہ اس سے تھوڑی آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔ دو کلو مچھلی کے عوض اسے آٹھ یورو مل جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے قلب میں سجے مینار
استنبول شہر کے مرکز تقسیم اسکوائر پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ یہاں ایک مسجد پر تیس میٹر اونچا گنبد اور دو مینار تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ترکی میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات تک یہ تعمیراتی کام مکمل ہوجائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان تاریخی مرکز کو نئی شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ’سیاسی اسلام‘ اور قدامت پسند سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول یورپی شہر ہے لیکن مذہبی بھی
استنبول کا ’’فاتح‘‘ نامی ضلع یورپی براعظم کا حصہ ہونے کے باوجود ایک قدامت پسند علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس علاقے کے رہائشیوں کا تعلق اناطولیہ سے ہے۔ یہ لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں استنبول آتے ہیں۔ مقامی افراد ’’فاتح‘‘ کو مذہبی علاقے کے حوالے سے پکارتے ہیں، جہاں زیادہ تر لوگ ترک صدر اردگان اور ان کی سیاسی جماعت ’اے کے پی‘ کے رکن ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
مساجد کے سائے تلے خریداری
ہر ہفتے بدھ کے روز ’’فاتح مسجد‘‘ کے سامنے ایک بازار لگتا ہے۔ اس بازار میں گھریلو سامان، ملبوسات، چادریں، سبزیاں اور پھل دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں ملنے والی اشیاء کی قیمت نسبتاﹰ مناسب ہوتی ہے۔ فاتح ضلعے میں اب زیادہ تر شامی مہاجرین منتقل ہو رہے ہیں۔ ترکی میں تین ملین سے زائد شامی تارکین وطن موجود ہیں۔ سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے بعد شامی شہریوں کو پناہ دینے کے اعتبار سے ترکی سرفہرست ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے وسط میں واقع ’مِنی شام‘
استنبول کا ضلع فاتح شامی ریستورانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کے ڈونر کباب میں لہسن کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ترکی میں مہاجرین کو ’’میسافر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ترکی میں سیاسی پناہ کا قانون یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے قدرے مختلف ہے۔ تاہم ترک حکومت کی جانب سے دس ہزار شامی مہاجرین کو ترک شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
’ہپستنبول‘ کی نائٹ لائف
اگر آپ شراب نوشی کا شوق رکھتے ہیں تو استنبول کے دیگر اضلاع میں جانا بہتر رہے گا، ایشیائی حصے میں واقع کاڈیکوئی علاقہ یا پھر کاراکوئی۔ یہاں کی دکانوں، کیفے، اور گیلریوں میں مقامی افراد کے ساتھ سیاح بھی دِکھتے ہیں۔ تاہم ترکی کی موجودہ قدامت پسند حکومت کے دور اقتدار میں شراب نوشی کسی حد تک ایک مشکل عمل ہوسکتا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے شہری یورپی سیاحوں کے منتظر
غلاطہ کے علاقے میں واقع ایک ڈیزائنر دُکان میں کام کرنے والی خاتون ایشیگئول کا کہنا ہے کہ ’استنبول بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے‘۔ استنبول میں چند سال قبل زیادہ تر یورپی سیاح چھٹیاں بسر کرنے آتے تھے تاہم اب عرب سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیگئول کا کہنا ہے کہ یہ ان کے کاروبار کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ سلسہ جلد تبدیل ہوجائے گا۔