آیا صوفیہ کے بعد ترکی نے ایک اور سابق کلیسا مسجد میں بدل دیا
22 اگست 2020
ترکی میں ایردوآن حکومت نے استنبول میں تاریخی آیا صوفیہ کے بعد جمعہ اکیس اگست کو ایک اور سابق بازنطینی کلیسا بھی باقاعدہ طور پر مسجد میں بدل دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا یہ سابق چرچ بھی استنبول میں واقع ہے۔
اشتہار
ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول سے ہفتہ بائیس اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس سابق بازنطنی کلیسا اور موجودہ چرچ کو صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت نے آیا صوفیہ کو باقاعدہ مسجد بنا دینے کے فیصلے کے تقریباﹰ ایک ماہ بعد ایک مسلم عبادت گاہ بنا دیا۔
آیا صوفیہ ایک ایسی عمارت ہے جو ماضی میں صدیوں تک مسجد بھی رہی ہے اور ایک کلیسا بھی۔ ایک ماہ پہلے تک وہ گزشتہ کئی عشروں سے ایک میوزیم تھی۔
استنبول شہر کی پہچان بن جانے والی اس تاریخی عمارت کو ایک مسلم عبادت گاہ میں بدل دینے کے فیصلے کی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کی طرف سے تو تعریف کی گئی تھی لیکن بین الاقوامی سطح پر اس اقدام پر بہت سخت تنقید بھی کی گئی تھی۔
ترک سرکاری گزٹ میں اعلان
ترکی کے سرکاری گزٹ میں شائع ہونے والے ایک فیصلے کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن کے ایک حکم کے تحت استنبول شہر کے انگریزی میں کورا یا ترک زبان میں 'کوریے‘ کہلانے والے علاقے میں قائم چرچ آف سینٹ سیویئر کو ترک مذہبی مقتدرہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ مذہبی اتھارٹی اب اس عمارت کو بہ طور مسجد مسلم عبادت گزاروں کے لیے کھول دے گی۔
استنبول ہی میں واقع آیا صوفیہ کی طرح یہ سابقہ چرچ اور موجودہ میوزیم ماضی میں صدیوں تک بدل بدل کر مسجد اور کلیسا دونوں ہی رہا ہے۔
اب دوبارہ مسجد بنائے جانے سے قبل عشروں تک یہ ایک عجائب گھر تھا۔ فی الحال ترک حکام نے یہ نہیں بتایا کہ اس میوزم کو عملاﹰ مسجد میں بدل کر وہاں نماز کی ادائیگی کب سے شروع کی جائے گی۔
آیا صوفیہ میں 86 برس بعد نماز
ایک عدالت کی جانب سے ترک شہر استنبول میں واقع آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد آج پہلی مرتبہ آیا صوفیہ میں نماز ادا کی گئی۔ اس عمارت کو مسجد قرار دینے پر عالمی سطح پر تنقید بھی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
آیا صوفیہ کے باہر بھی
جمعے کی نماز کے لیے آیا صوفیہ کے باہر بھی سیکنڑوں افراد موجود تھے۔
تصویر: AFP/O. Kose
کلیسا، مسجد، میوزم اب پھر مسجد
یہ عمارت چرچ کے لیے تعمیر کی گئی تھی تاہم عثمانی دور میں اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ گزشتہ صدی میں جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے اس عمارت کو میوزیم میں بدلنے کا اعلان کیا تھا، تاہم اب اب ایک پھر اسے اسے مسجد میں بدل دیا گیا ہے۔
تصویر: DHA
مسیحی علامات نہیں مٹائی جائیں گی
ترک حکام کے مطابق آیا صوفیہ میں موجود مسیحی علامات و نشانات نہیں مٹائے جائیں گے، تاہم نماز کے وقت انہیں پردوں سے ڈھانپ دیا جائے گا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
ترک صدر بھی آیا صوفیہ میں
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ آیا صوفیہ میں جلد ہی نماز ادا کی جائے گی۔ جمعے کے روز وہ خود بھی آیا صوفیہ میں نماز کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آیا صوفیہ کی مسجد میں تبدیلی ایردوآن کے لیے ایک سیاسی فائدے کا اقدام ہے۔
تصویر: AFP/Turkish Presidential Press
کورونا سے بچاؤ
آیا صوفیہ میں صحت سے متعلق حکام جراثیم کش دوا کا چھڑکاؤ کر رہے ہیں۔ آیا صوفیہ میں نماز کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/O. Dogman
سماجی فاصلہ
آیا صوفیہ میں جمعے کی نماز کے لیے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی، تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر لوگوں سے باہمی فاصلے کا خیال رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔
تصویر: DHA
آیا صوفیہ اب ٹکٹ نہیں
آیا صوفیہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ترکی کی معروف ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ عام سیاح اسے مسجد میں تبدیل کر دینے کے باوجود یہاں آتے رہیں گے، تاہم نماز کے وقت سیاحوں کی حرکت کو محدود کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اب آیا صوفیہ میں داخلے کا ٹکٹ بھی نہیں ہو گا۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
ایردوآن کی سیاسی چال؟
ناقدین کا کہنا ہے کہ آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنا مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان موجود ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ تاہم ایردوآن نے یہ اقدام ترکی کے قوم پرست ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
8 تصاویر1 | 8
استنبول کے قدیمی حصے کے دیواروں کے پاس واقع چرچ
استنبول میں یہ سابق کلیسا شہر کے قدیمی حصے کی دیواروں کے پاس قائم ہے۔ یہ اپنی اندرونی دیواروں پر بنائے گئے نقش و نگار اور مذہبی تصویروں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ مسیحی عبادت گاہ چوتھی صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ تاہم اس کی موجودہ عمارت کے باہر لگی تختی کے مطابق یہ چرچ گیارہویں یا بارہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
سلطنت عثمانیہ کے دور میں اس کلیسا کو مسجد بنا دیا گیا تھا۔ پھر جدید ترک ریاست کے قیام کے تقریباﹰ دو عشرے بعد اسے 1945ء میں ایک میوزیم کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
آیا صوفیہ کی طرح گزشتہ سال ایک عدالتی فیصلے میں اس عمارت کی میوزیم کے طور پر حیثیت بھی منسوخ کر دی گئی تھی، جس کے بعد اس کے کل جمعہ اکیس اگست کو پھر ایک مسجد میں بدل دیے جانے کی قانونی راہ ہموار ہو گئی تھی۔
استنبول، مذہبی تہذیب اور سیکیولر روایات کا امتزاج
یورپ اور ترکی کے سیاسی تنازعات کے باوجود ان میں چند مشترکہ ثقافتی روایات پائی جاتی ہیں۔ پندرہ ملین رہائشیوں کا شہراستنبول جغرافیائی حوالے سے دو برِاعظموں میں بٹا ہوا ہے۔ ثقافتی تضادات کے شہر، استنبول کی تصاویری جھلکیاں
تصویر: Rena Effendi
استنبول کی روح میں یورپ بسا ہوا ہے
ترکی کا شہر استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ استنبول میں روایتی اور جدید طرز زندگی کے عنصر نظر آتے ہیں۔ تاہم مذہبی اور سیکولر طرزِ زندگی اس شہر کی زینت ہے۔ کثیر الثقافتی روایات کا جادو شہرِ استنبول کی روح سے جڑا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
دو ہزارسال قدیم شہر
استنبول کی تاریخ قریب دو ہزار چھ سو سال پر محیط ہے۔ آج بھی اس شہر میں تاریخ کے ان ادوار کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ماضی میں کئی طاقتور حکومتوں نے استنبول کے لیے جنگیں لڑیں، خواہ وہ ایرانی ہوں کہ یونانی، رومی سلطنت ہو کہ سلطنتِ عثمانیہ۔ جیسا کہ قسطنطنیہ سلطنتِ عثمانیہ کا مرکز رہنے سے قبل ’بازنطین‘ کا مرکز بھی رہا۔ بعد ازاں سن 1930 میں پہلی مرتبہ ترکی کے اس شہر کو استنبول کا نام دیا گیا۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول، دو مختلف ثقافتوں کے درمیان
آبنائے باسفورس کو استنبول کی ’نیلی روح‘ کہا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس ترکی کو ایشیائی حصے سے جدا کرکے یورپی حصے میں شامل کرتی ہے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ہزاروں مسافر روزانہ یہ سمندری پٹی عبور کر کے دو براعظموں کے درمیاں سفر طے کرتے ہیں۔ مسافر تقریبا بیس منٹ میں یورپی علاقے ’کراکوئی‘ سے ایشیائی علاقے ’کاڈیکوئی‘ میں داخل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
قدیم قسطنطنیہ کا ’غلاطہ پل‘
غلاطہ پل ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے۔ یہاں لوگ بحری جہازوں کے دلکش مناظر دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ طویل قطاروں میں کھڑے لوگ ڈوری کانٹے سے مَچھلی پَکَڑنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ یہ سیاحتی مقام بھی ہے، یہاں مکئی فروش، جوتے چمکانے والے اور دیگر چیزیں فروخت کرتے ہوئے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سن 1845 میں پہلی مرتبہ یہ پل قائم کیا گیا تھا، تب استنبول کو قسطنطنیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تصویر: Rena Effendi
’یورپ ایک احساس ہے‘
میرا نام فیفکی ہے، ایک مچھلی پکڑنے والے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں خود کو یورپی شہری سمجھتا ہوں۔ ہم زیادہ آزادی کے خواہش مند ہیں لہٰذا ترکی اور یورپ کو ایک ساتھ ملنا چاہیے۔ فیفکی ریٹائرڈ ہوچکا ہے اورمچھلیاں پکڑنے کا شغف رکھتا ہے۔ تاہم فیفکی نے بتایا کہ اس سے تھوڑی آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔ دو کلو مچھلی کے عوض اسے آٹھ یورو مل جاتے ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے قلب میں سجے مینار
استنبول شہر کے مرکز تقسیم اسکوائر پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ یہاں ایک مسجد پر تیس میٹر اونچا گنبد اور دو مینار تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ترکی میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات تک یہ تعمیراتی کام مکمل ہوجائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان تاریخی مرکز کو نئی شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کہ ’سیاسی اسلام‘ اور قدامت پسند سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی عکاسی کرتی ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول یورپی شہر ہے لیکن مذہبی بھی
استنبول کا ’’فاتح‘‘ نامی ضلع یورپی براعظم کا حصہ ہونے کے باوجود ایک قدامت پسند علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس علاقے کے رہائشیوں کا تعلق اناطولیہ سے ہے۔ یہ لوگ روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں استنبول آتے ہیں۔ مقامی افراد ’’فاتح‘‘ کو مذہبی علاقے کے حوالے سے پکارتے ہیں، جہاں زیادہ تر لوگ ترک صدر اردگان اور ان کی سیاسی جماعت ’اے کے پی‘ کے رکن ہیں۔
تصویر: Rena Effendi
مساجد کے سائے تلے خریداری
ہر ہفتے بدھ کے روز ’’فاتح مسجد‘‘ کے سامنے ایک بازار لگتا ہے۔ اس بازار میں گھریلو سامان، ملبوسات، چادریں، سبزیاں اور پھل دستیاب ہوتے ہیں۔ یہاں ملنے والی اشیاء کی قیمت نسبتاﹰ مناسب ہوتی ہے۔ فاتح ضلعے میں اب زیادہ تر شامی مہاجرین منتقل ہو رہے ہیں۔ ترکی میں تین ملین سے زائد شامی تارکین وطن موجود ہیں۔ سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے بعد شامی شہریوں کو پناہ دینے کے اعتبار سے ترکی سرفہرست ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے وسط میں واقع ’مِنی شام‘
استنبول کا ضلع فاتح شامی ریستورانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں کے ڈونر کباب میں لہسن کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ترکی میں مہاجرین کو ’’میسافر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ترکی میں سیاسی پناہ کا قانون یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے قدرے مختلف ہے۔ تاہم ترک حکومت کی جانب سے دس ہزار شامی مہاجرین کو ترک شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
’ہپستنبول‘ کی نائٹ لائف
اگر آپ شراب نوشی کا شوق رکھتے ہیں تو استنبول کے دیگر اضلاع میں جانا بہتر رہے گا، ایشیائی حصے میں واقع کاڈیکوئی علاقہ یا پھر کاراکوئی۔ یہاں کی دکانوں، کیفے، اور گیلریوں میں مقامی افراد کے ساتھ سیاح بھی دِکھتے ہیں۔ تاہم ترکی کی موجودہ قدامت پسند حکومت کے دور اقتدار میں شراب نوشی کسی حد تک ایک مشکل عمل ہوسکتا ہے۔
تصویر: Rena Effendi
استنبول کے شہری یورپی سیاحوں کے منتظر
غلاطہ کے علاقے میں واقع ایک ڈیزائنر دُکان میں کام کرنے والی خاتون ایشیگئول کا کہنا ہے کہ ’استنبول بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے‘۔ استنبول میں چند سال قبل زیادہ تر یورپی سیاح چھٹیاں بسر کرنے آتے تھے تاہم اب عرب سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیگئول کا کہنا ہے کہ یہ ان کے کاروبار کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ سلسہ جلد تبدیل ہوجائے گا۔
تصویر: Rena Effendi
11 تصاویر1 | 11
’اقوام متحدہ کے چارٹر کی نفی‘
آیا صوفیہ کی قانونی حیثیت تبدیل کیے جانے پر ردعمل کی طرح، کوریے چرچ کی حیثیت بدلے جانے پر بھی یونانی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں اس عمل کی سخت مذمت کی ہے۔
اس بیان کے مطابق، ’’ترک حکومت کا یہ اقدام بھی اقوام متحدہ کی عالمی ثقافتی میراث قرار دیے گئے تاریخی اثاثوں کی فہرست میں شامل ایک اور ورثے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی ایسی کوشش ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی ایک سفاکانہ نفی ہے۔‘‘
یونانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے، ’’یہ تمام باعقیدہ مسیحیوں کی تذلیل ہے۔ ہم ترکی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آج کی 21 ویں صدی میں واپس لوٹ آئے اور مذاہب اور تہذیبوں کے مابین باہمی احترام کے اصول اور مکالمت کی راہ پر چلے۔‘‘
م م / ع ب (اے پی، اے ایف پی)
سلطنت عثمانیہ کی یادگار، ترکی کا تاریخی گرینڈ بازار
ترکی کے شہر استنبول میں واقع تاریخی گرینڈ بازار کا شمار دنیا کے قدیم ترین بازاروں میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد سن چودہ سو پچپن میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں رکھی گئی۔ گرینڈ بازار میں اکسٹھ گلیاں اورسینکڑوں دکانیں ہیں-
تصویر: DW/S. Raheem
اکسٹھ گلیاں، تین ہزار دکانیں
تین ہزار سے زائد مخلتف اشیاء کی دوکانوں والے اس صدیوں پرانے خریدو فروخت کے مرکز کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی چھت کے نیچے کم وبیش ہر طرح کی اشیاء خریدوفروخت کے لیے موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
صدیوں سے چلتا کاروبار
یہاں پر چمڑے اور سلک کے ملبوسات تیار کرنیوالوں، جوتا سازوں، صّرافوں، ظروف سازوں، قالین بافوں، گھڑی سازوں، آلات موسیقی اور کامدار شیشے سے خوبصورت لیمپ تیار کرنیوالوں کی صدیوں سے چلی آ رہی دوکانیں بازار کی تاریخی حیثیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
زلزلے سے نقصان
گرینڈ بازار کو اپنے قیام کے بعد مختلف ادوار میں شکست وریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ سولہویں صدی میں آنے والے زلزلے نے اس بازار کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ لیکن منتظمین نے بڑی حد تک اسے اپنی اصل شکل میں برقرار رکھا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
تین لاکھ خریدار روزانہ
ایک اندازاے کے مطابق روزانہ اڑھائی سے تین لاکھ افراد گرینڈ بازار کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں مقامی افراد کے علاوہ بڑی تعداد غیر ملکی سیاحوں کی بھی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
فانوس و چراغ
خوبصورت نقش و نگار والے فانوسوں اور آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنیوں والے دیدہ زیب لیمپوں کی دکانیں اس تاریخی بازار کی الف لیلوی فضا کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترکی کی سوغاتیں
بازار میں خریدار خاص طور پر ترکی کی سوغاتیں خریدنے آتے ہیں۔ ان میں انواع واقسام کی مٹھائیاں اور مصالحہ جات شامل ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
پانی کے نلکے
صدیوں پرانے اس بازار کی ایک قابل ذکر بات یہاں پر اس دور میں مہیا کی جانےوالی سہولیا ت ہیں۔ جن میں سب سے نمایاں یہاں لگائے گئے پانی کے نل ہیں جن سے آج بھی یہاں آنے والے اپنی پیاس بجھا ر ہے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
اکیس دروازے
بازار میں داخلے اور اخراج کے لئے مختلف اطراف میں اکیس دروازے ہیں اور ہر ایک دروازے کو مختلف نا م دیے گئےہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خواتین کے پرس
بازار میں خواتین کے دستی پرس یا ہینڈ بیگز سے لدی دوکانوں کی بھی کمی نہیں۔ یہاں پر اصل اور مصنوعی چمڑے اور مقامی کشیدہ کاری کے ڈیزائنوں سے مزین بیگ ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ معروف بین الاقوامی برانڈز کی نقول بھی باآسانی دستیاب ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
سونے کے زیورات بھی
طلائی زیورات اورقیمتی پتھروں کے شوقین مرد وخواتین کے ذوق کی تسکین کے لئے بھی گرینڈ بازار میں متعدد دوکانیں موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
خوش اخلاق دوکاندار
اس بازار کی ایک اور خاص بات یہاں کے دوکانداروں کا مختلف زبانوں میں گاہکوں سے گفتگو کرنا ہے۔ بازار میں گھومتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے دوکاندار گاہکوں کے ساتھ انگلش، عربی ، جرمن ، اردو اور ہندی زبانوں میں گفتگو کرتے سنائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
گرم شالیں
مقامی ہنرمندوں کے ہاتھوں سے تیار کی گئی گرم شالیں بھی یہاں خریداری کے لئے آنے والوں میں خاصی مقبول ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
بھاؤ تاؤ بھی چلتا ہے
گرینڈ بازار میں آنے والے گاہک دوکانداروں سے بھاؤ تاؤ کر کے قیمت کم کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اس میں وہ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
دیدہ زیب سجاوٹ
ترکی کے مخلتف علاقوں میں تیار کیے جانے والے آرائشی سامان کو یہاں اتنے خوشنما طریقے سے سجایا جاتا ہے کہ قریب سے گزرنے والے ایک نظر دیکھے بغیر نہیں رہ سکتے۔
تصویر: DW/S. Raheem
شیشے کی دوکانیں
گرینڈ بازار میں ترک اور عرب نوجوانوں میں مقبول شیشے کی دوکانیں بھی ہیں جہاں مخلتف رنگوں کے شیشے اور ان میں استعمال ہونیوالا تمباکو بھی مختلف ذائقوں میں دستیاب ہے۔