متحدہ عرب امارات کے صدر نے اپنے بیٹے کو ابوظہبی کا ولی عہد مقرر کیا ہے، جو تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کے اگلے سربراہ ہوں گے۔ صدر نے اپنے بھائی اور مانچسٹر سٹی ایف سی کے مالک کو ملک کا نائب صدر بھی مقرر کیا ہے۔
تصویر: Ryan Carter / Crown Prince Court/Abu Dhabi/AP/picture alliance
اشتہار
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان نے بدھ کے روز اپنے بڑے بیٹے شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان کو ریاست کا ولی عہد مقرر کرنے کے ساتھ ہی اپنے بھائیوں کو بھی بعض اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر کے ملک کی اعلیٰ شخصیات اور اشرافیہ کو حیران کن جھٹکا دیا۔
ابوظہبی متحدہ عرب امارات کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ہی امارات کی سات ریاستوں میں سب سے امیر ریاست ہے۔ شیخ خالد بن محمد بن زید النہیان اب اس کے ولی عہد ہیں۔ یہ عہدہ روایتی طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست کا اگلا صدر کون ہو گا۔
برطانوی فٹ بال کلب مانچسٹر سٹی کے مالک منصور بن زید النہیان کو، دبئی کے حکمراں محمد بن راشد المکتوم کے ساتھ ہی، تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کا نائب صدر نامزد کیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Nabil
10 تصاویر1 | 10
ولی عہد کے طور پر شیخ خالد کی تقرری سے ابوظہبی میں اقتدار کی مرکزیت کو مزیدتقویت ملی ہے، جس کے پاس سن 1971 میں متحدہ عرب امارات کے قیام کے بعد سے ہی، ملک کی صدارت ہے۔
جانشینی کے لیے یہ فیصلہ بھائیوں کی نسبت بیٹوں کی طرف غالب رجحان کی بھی عکاسی کرتا ہے، جیسا کہ سعودی عرب کی طرح دیگر خلیجی ممالک میں ہوا ہے۔
یورپی کونسل میں خارجی تعلقات کے امور کی ایک ریسرچ فیلو سنزیا بیانکو کا کہنا ہے کہ شیخ محمد نے اپنے ممتاز بھائیوں کو نئے عہدوں پر مقرر کر کے ''طاقت کے اشتراک میں کچھ توازن رکھا ہے، تاہم اسے بھی صرف (ابوظہبی کے) النہیان قبیلے کے اندر ہی محدود رکھا۔''
شیخ محمد ایم بی زیڈ کے نام سے بھی معروف ہیں، جنہیں گزشتہ برس ان کے سوتیلے بھائی شیخ خلیفہ کی موت کے بعد صدر نامزد کیا گیا تھا۔
حالانکہ شیخ خلیفہ کے بیمار ہونے کی وجہ سے خود ایم بی زیڈ ہی برسوں سے متحدہ عرب امارات کے عملاً حکمران تھے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)
ابوظہبی: جرمن ڈاکٹر کے زیر انتظام چلنے والا شاہینوں کا ہسپتال
متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ایک جرمن ماہر حیوانات مارگِٹ میولر شاہینوں کے ایک ہسپتال کی سربراہ ہیں۔ وہ ایسے پرندوں کا خیال رکھتی ہیں جو اس عرب ملک کے مردوں کا بہترین مشغلہ اور تفریح کا ذریعہ ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
ابوظہبی میں شاہینوں کا ہسپتال
ہسپتال میں داخل ہوتے ہی آپ کا استقبال شاہین کا لکڑی سے بنا ایک بڑا مجسمہ کرتا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ جگہ شکاری پرندوں کی آماجگاہ ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
پروں والے مریضوں کا کمرہ انتظار
یہ مریض 20 سینٹی میٹر لمبے لکڑی کے ایک ایسے ڈنڈے پر بیٹھے ہیں جس پر مصنوعی گھاس بھی لپٹی ہے۔ ان کی آنکھوں پر چمڑے کا بنا ایک خول بھی چڑھا رہتا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
ہسپتال کا کاروبار چمکتا ہوا
شاہینوں کے اس ہسپتال میں سالانہ قریب 11 ہزار پرندوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ 1999ء میں اس ہسپتال کے قیام سے لے کر یہ اب تک قریب 75 ہزار شاہینوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
شاہینوں کی ماہر
اماراتی باشندے جرمنی سے تعلق رکھنے والی ماہر حیوانات مارگِٹ میولر کو ’’ڈوکٹورا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ 49 سالہ میولر 2001ء سے اس ہسپتال کی سربراہ ہیں۔ شاہینوں کی یہ ماہر اب صرف متحدہ عرب امارات ہی نہیں بلکہ اپنے شعبے میں دنیا بھر میں شہرت حاصل کر چکی ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
چھوٹے چھوٹے مریضوں کے لیے چھوٹی مشینیں
یہ مشینیں ابتدائی طور پر بچوں کے ہسپتال سے لی گئیں کیونکہ یہ پرندوں کے لیے مناسب سائز کی ہیں۔ مثال کے طور پر قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی نگہداشت کے لیے استعمال ہونے والے یہ انکیوبیٹر۔
تصویر: DW/M. Marek
ایک شاہین کی سرجری
یہ شاہین آپریشن ٹیبل پر سکون سے پڑا ہے۔ سرجری کرنے والے آلات بنیادی نوعیت کے ہیں جو اس پرندے کے آپریشن کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
مصنوعی پر
ہسپتال کا ایک کمرہ متبادل پروں سے بھرا ہوا ہے جس میں ان پروں کو سائز اور رنگ کے حساب سے ترتیب میں رکھا گیا ہے۔ اگر کسی باز یا شاہین کا کوئی پر ٹوٹ جائے تو اس کی جگہ ان مصنوعی پروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک نئے پر کو گِر جانے والے پر کی جگہ لگا دیا جاتا ہے اور اس طرح یہ پرندہ پھر سے پرواز کے قابل ہو جاتا ہے۔ جب اصل پر دوبارہ نکل آتا ہے تو مصنوعی پر کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M. Marek
جرمنی سے متحدہ عرب امارات تک
مارگِٹ میولر جرمن شہر اُلم کے قریب پیدا ہوئیں اور جرمنی ہی میں انہوں نے وٹرنری کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنا ڈاکٹریٹ کا تھیسس فالکن یا شاہینوں کے پروں کی ایک بیماری پر لکھا۔ اس کے بعد وہ عملی تربیت کے لیے دبئی چلی گئیں۔ ان کے کام کو اس حد تک پسند کیا گیا کہ انہیں ابوظہبی میں شاہینوں کے علاج کا ایک ہسپتال بنانے کی آفر کر دی گئی۔
تصویر: DW/M. Marek
قیمتی پرندے
ایک فالکن کی انڈواسکوپی پر قریب 70 یورو کا خرچ آتا ہے یہ رقم پاکستانی ساڑھے آٹھ ہزار روپے کے قریب بنتی ہے۔ بڑے آپریشن ظاہر ہے کہ بہت زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔ لہذا شاہین یا فالکن پالنا کوئی سستا شوق نہیں ہے۔جو لوگ باز رکھتے ہیں انہیں یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ اس پرندے کے علاج اور اس کا خیال رکھنے پر 300 سے 400 یورو ہر مہینے درکار ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/M. Marek
آپ کا پاسپورٹ پلیز!
متحدہ عرب امارات میں ہر باز یا شاہین کا الگ سے پاسپورٹ بھی ہوتا ہے جس میں اس پرندے کے بارے میں اہم معلومات اور مالک کا نام درج ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پرندے کے جسم پر لگائی گئی مائیکرو چپ کا 13 حروف پر مشتمل ایک کوڈ بھی درج ہوتا ہے۔ تاہم اس پاسپورٹ میں تصویر موجود نہیں ہوتی۔
تصویر: DW/M. Marek
سیاحوں کے لیے ایک کشش
2007ء کے بعد سے سیاح بھی اس ہسپتال کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اس ہسپتال میں ایک میوزیم بھی قائم ہے جس سے سیاحوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پرندہ خلیجی ممالک میں اتنا اہم کیوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فالکن ہسپتال ابوظہبی کی 10 اہم سیاحتی دلچسپیوں میں شامل ہے۔