بینرجی کا نوبل انعام بی جے پی اور کانگرس میں تکرار کا سبب
جاوید اختر، نئی دہلی
15 اکتوبر 2019
بھارتی نژاد امریکی ماہر اقتصادیات ابھیجیت بینرجی کو نوبل انعام کے لیے منتخب کیے جانے پر یوں تو بھارتی عوام خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تاہم ملک کی حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اس معاملے پر لفظی جنگ چھڑ گئی ہے۔
اشتہار
اس کی اہم وجہ ابھیجیت بینرجی کی طرف سے مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی نکتہ چینی اور اپوزیشن کانگریس کے لیے اقتصادی پروگراموں کی تیاری میں معاونت بتائی جا رہی ہے۔
رائل سویڈش اکیڈمی کی طرف سے اقتصادیات کے نوبل انعام کے لیے ابھیجیت بینرجی، ان کی اہلیہ ایستھر ڈوفلو اور مائیکل کریمر کے ناموں کا جیسے ہی علان ہوا، بھارت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
کلکتہ یونیورسٹی اور دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ بھارتی نژاد امریکی شہری بینرجی کو مبارک باد دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
تاہم کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود جب وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے مبارک باد کا کوئی پیغام دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا، تو لوگوں نے حیرت، تعجب اور افسوس کا اظہار شروع کردیا۔ بہر حال وزیر اعظم مودی نے ایک ٹوئیٹ کر کے ابھیجت بینرجی کومبارک باد دی۔
وزیر اعظم مودی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا، ”ابھیجیت بینرجی کو الفریڈ نوبل کی یاد میں اقتصادی سائنس میں 2019 کا Sveriges Riksbank انعام سے نوازے جانے پر مبارک باد۔ انہوں نے انسداد غربت کے شعبہ میں نمایاں کام کیا ہے۔"
مودی نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا، ”میں باوقار نوبل انعام جیتنے پر ایستھر ڈوفلو اور مائیکل کریمر کو مبارک باد دیتا ہوں۔"
اس ٹوئٹ پر سوشل میڈیا میں صارفین نے وزیر اعظم مودی پر 'تنگ دلی‘ کا الزام لگایا۔ بعد میں اپوزیشن کانگریس اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماوں کے درمیان اس معاملے پر باضابطہ لفظی جنگ چھڑ گئی۔
کانگریس کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر کپل سیبل نے ٹوئٹ کیا، ”کیا مودی جی سن رہے ہیں؟ ابھیجیت بینرجی نے کہا ہے کہ ہماری معیشت ڈگمگا رہی ہے۔ حکومت اعداد و شمار میں ہیر پھیر کرتی ہے۔ اوسط شہری اور دیہی افراد کی قوت خرید میں کمی آ گئی ہے۔ سن ستر کی دہائی کے بعد ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہم سب بحران سے دوچار ہیں۔ وزیر اعظم اب تو کام پر لگ جائیے، تصویریں مت کھنچوائیے۔"
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ابھیجیت کو مبارک باد دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”ابھیجیت نے اصولی انصاف دلانے میں مدد کی، جس میں غربت کو ختم کرنے اور بھارتی معیشت کو بہتر بنانے کی طاقت ہے۔ لیکن اس کے بجائے ہمارے یہاں 'مودی نومکس‘ ہے جو معیشت کو ختم کر رہی ہے اور غربت میں اضافہ کررہی ہے۔"
دوسری طرف حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی کانگریس پر جوابی حملہ شروع کر دیا۔ بی جے پی کے رکن پارلیمان اننت ہیگڑے نے اپنی ناراضی ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”ہاں وہ آدمی جس نے مہنگائی بڑھانے اور پپو (بی جے پی کی طرف سے راہل گاندھی کے لیے استعمال کیا جانے والا طنزیہ نام) کے ذریعے سے ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کرنے کی سفارش کی تھی، اسے 2019 کے نوبل انعام کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔" بی جے پی یوتھ ونگ کے ایک نائب صوبائی صدر ایس جے سوریا نے تو یہ دعوی کردیا کہ 'اقتصادیات کے لیے کوئی نوبل انعام دیا ہی نہیں جاتا‘ ہے۔
ابھیجیت سے ناراضی اور انہیں اتنی بڑی کامیابی پر مبارک باد دینے میں حکمراں بی جے پی کی سرد مہری کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ایم آئی ٹی سے وابستہ پروفیسر ابھیجیت مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور اقدامات پر کھل کر رائے ظاہر کرتے رہے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے جب بڑے نوٹوں پر پابندی (ڈیمونیٹائزیشن) کا اعلان کیا تھا تو ابھیجیت بینرجی نے اس کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا، ”میں اس فیصلے کی منطق کو نہیں سمجھ پا رہا ہوں، جیسے کہ دو ہزار روپے کے کرنسی نوٹ کیوں جاری کیے گئے۔ میرے خیال میں اس فیصلے کی وجہ سے جتنے بڑے بحران کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے،حقیقی بحران اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔"
ابھیجیت دنیا کے ان 108 ماہرین اقتصادیات میں بھی شامل تھے، جنہوں نے مودی حکومت پر ملک کے جی ڈی پی کے اعدادوشمار میں ہیر پھیر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔
گزشتہ عام انتخابات سے قبل کانگریس کے اس وقت کے صدر راہل گاندھی نے ابھیجیت بینرجی سے ملاقات کر کے غریبوں کے بہبود کے لیے کوئی قابل عمل اقتصادی پروگرام پیش کرنے کی گزارش کی تھی۔ جس پر بینرجی نے 'نیائے‘ (غریبوں کے لیے کم از کم آمدنی) اسکیم کا آئیڈیا دیا تھا۔ اس کے تحت خط افلاس سے نیچے رہنے والے افراد کو ماہانہ چھ ہزار روپے کی مالی مدد دینے کی بات کہی گئی تھی۔ کانگریس نے اسے اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا تھا۔
ابھیجیت بینرجی نے نوبل انعام کے لیے منتخب کیے جانے کے بعد ایک بار پھر کہا، ”بھارتی معیشت بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومت بھی اب یہ ماننے لگی ہے کہ کچھ مسئلہ ہے۔ معیشت تیزی سے سست رفتاری کی طرف جا رہی ہے، کتنی تیزی سے یہ ہمیں نہیں معلوم، کیوں کہ اعدادوشمار کے سلسلے میں اختلافات ہیں۔"
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔