1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'اب بہت ہو چکا، غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے،‘ اقوام متحدہ

6 نومبر 2023

اقوام متحدہ کے تمام اہم اداروں نے ایک مشترکہ بیان میں غزہ میں شہری اموات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے پیر کے روز بھی غزہ پر ''اہم‘‘ حملے کیے ہیں۔

غزہ پٹی میں جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود اسرائیل نے پیر کو غزہ پر ''اہم‘‘ حملے جاری رکھے
غزہ پٹی میں جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود اسرائیل نے پیر کو غزہ پر ''اہم‘‘ حملے جاری رکھےتصویر: Hatem Moussa/AP/picture alliance

اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش اور اس عالمی ادارے کے تمام اہم ذیلی اداروں کے سربراہان نے بھی اتوار کے روز ایک غیر معمولی مشترکہ بیان میں غزہ پٹی کے علاقے میں شہری اموات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں بشمول یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک بیان میں کہا، ''تقریبا ًایک ماہ سے دنیا صدمے اور خوف کے عالم میں اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورت حال کا مشاہدہ کر رہی ہے، جہا ں ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور تباہی بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

ایمبولینسوں پر اسرائیلی حملے سے ’خوفزدہ‘ ہوں، اقوام متحدہ کے سربراہ

اس بیان میں کہا گیا، ''غزہ میں ایک پوری آبادی محصور اور حملوں کا شکار ہے، وہ زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیاء تک رسائی سے محروم ہے، وہاں عام باشندوں کے گھروں، پناہ گاہوں، ہسپتالوں اور عبادت گاہوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ ناقابل قبول ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کی اٹھارہ تنظیموں کے سربراہوں کے دستخطوں سے جاری کردہ اس بیان میں مزید کہا گیا، ''ہمیں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فوراً جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ 30 دن ہو چکے۔ بس بہت ہو گیا۔ اسے بند ہونا چاہیے۔‘‘ اس بیان میں سات اکتوبر کے بعد دونوں طرف ہونے والی اموات کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس بیان میں حماس سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قیدی بنائے گئے 240  سے زائد یرغمالیوں کو رہا کرے اور فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جنگ کے دوران بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا احترام کریں۔

غزہ سٹی اسرائیلی فوج کے مکمل محاصرے میں، بلنکن پھر اسرائیل میں

اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے رہنماؤں نے کہا کہ غزہ میں مزید خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن لے جانے کی اجازت دی جانا چاہیے تاکہ محصور آبادی کی مدد کی جا سکے۔

غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے مسلسل فضائی اور زمینی حملوں سے اموات کی تعداد 10 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔

اسرائیل کے مسلسل فضائی اور زمینی حملوں سے اموات کی تعداد 10 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہےتصویر: Abed Khaled/AP Photo/picture alliance

غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کی جانب سے غزہ پٹی میں جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود اسرائیل نے پیر کو غزہ پر ''اہم‘‘ حملے جاری رکھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج کے ترجمان جوناتھن کونریکس نے بتایا، ''ہم حماس پر حملہ کر رہے ہیں، اور ہم اپنے منصوبے کے مطابق حماس کو اس کی عسکری صلاحیتوں سے محروم کر دینے کی منظم کوشش کے تحت اس کے مضبوط گڑھ کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘

فوجی ترجمان نے کہا، ''ہمارے پاس زمین پر فوجیں، انفنٹری، آرمر، جنگی انجینئر ہیں۔ وہ حملہ کر رہے ہیں اور وہ فضا سے فائر بھی کر رہے ہیں۔‘‘

غزہ پٹی میں غزہ شہر کے ایک رہائشی ابو حصرہ نے اپنے رہائشی علاقے کے بارے میں بتایا، ''"یہ حملہ زلزلے کی طرح ہے،‘‘ اور مکانات ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔

اسرائیلی ٹینک اور فوجی غزہ پٹی کے اندر تک پہنچ گئے، اسرائیل

دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے کے مسترد کیے جانے کے بعد غزہ میں عام شہریوں کو بچانے کے لیے تل ابیب پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں آج پیر کے روز بھی جاری رہیں گی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پیر کو انقرہ میں ترک وزیر خارجہ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ چند گھنٹے پہلے فلسطین کے حامی مظاہرین میں شامل سینکڑوں افراد نے جنوبی ترکی میں امریکی فوجیوں کی ایک ایئر بیس پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اتوار کو مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے کا ایک غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ بلنکن نے امریکی خدشات کو دہرایا کہ جنگ بندی سے حماس کی مدد ہو سکتی ہے۔

غزہ: جبالیہ مہاجر کیمپ پر اسرائیلی حملے میں درجنوں ہلاکتیں

02:20

This browser does not support the video element.

ج ا/ ص ز، م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں