جاپان کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے بعد وزیر اعظم آبے نے کہا ہے کہ اب وہ شمالی کوریا سے ثابت قدمی سے نمٹ سکیں گے۔ اتوار کے دن منعقد ہوئے اس الیکشن کے ایگزٹ پولز کے مطابق آبے کو قطعی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جاپانی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ بائیس اکتوبر بروز اتوار جاپان کے پارلیمانی الیکشن کے ابتدائی نتائج کے مطابق حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی( ایل ڈی پی) کو واضح برتری حاصل ہو گئی ہے۔
توقع ہے کہ آبے کی پارٹی 465 نشستوں والی پارلیمان میں 311 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لے گی۔ اگر یہ ایگزٹ پولز درست ثابت ہوئے تو آبے ملک کے طویل ترین رہنما بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیں گے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں اس الیکشن میں آبے کا سیاسی اتحاد پچیس زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
شینزو آبے نے گزشتہ ماہ ہی قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ بڑے پیمانے پر عوامی مینڈینٹ حاصل کر سکیں۔ علاقائی سطح پر شمالی کوریا کی ’اشتعال انگیزی‘ کے تناظر میں آبے اپنی سیاسی طاقت کو زیادہ فعال بنانا چاہتے تھے تاکہ وہ اس حوالے سے زیادہ مؤثر طریقے سے کوئی پالیسی وضع کر سکیں۔
اتوار کو منعقد ہوئے اس الیکشن کے حتمی سرکاری نتائج پیر کے دن متوقع ہیں۔ کئی جائزوں کے مطابق ایسا امکان بھی ہے کہ آبے ’سپر اکثریت‘ حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔
ان انتخابات کی بارہ روزہ مہم کے دوران شمالی کوریا کا جوہری اور میزائل پروگرام مرکزی توجہ کا حامل رہا تھا۔ آبے نے اپنی انتخابی مہم میں بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر انہیں قطعی اکثریت حاصل ہوئی تو وہ شمالی کوریا کے معاملے پر زیادہ سخت مؤقف اختیار کریں گے۔
اس کامیابی پر آبے نے کہا کہ اب انہیں سیاسی مینڈیٹ حاصل ہو گیا ہے اور وہ شمالی کوریا سے زیادہ ثابت قدمی سے نمٹ سکیں گے۔ مبینہ طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے بعد تریسٹھ سالہ آبے نے ٹوکیو میں اپنے حامیوں سے کہا، ’’اس مقصد کی خاطر انہیں زیادہ طاقت اور سفارتکاری کی ضرورت تھی۔‘‘
سپر اکثریت ملنے کی صورت میں شینزو آبے امریکا کی طرف سے بنائے جانے والے ملکی آئین کے آرٹیکل نائن میں ترمیم کے قابل بھی ہو جائیں گے، جس کے تحت جاپان کی فوج پر پابندیاں عائد ہیں۔
آبے کا موقف ہے کہ موجودہ امن پسند آئین کسی آزاد قوم کے شایانِ شان نہیں ہے کیونکہ یہ 1946ء کے بعد قابض طاقت امریکا کی جانب سے جاپان پر مسلط کیا گیا تھا۔ دوسری طرف ناقدین کے خیال میں اس ترمیم کے بعد زیادہ امکان یہ ہے کہ جاپان مزید ایک جمہوری اور آزاد ملک نہیں رہے گا۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔