جرمنی میں ضرورت مند لوگوں کو مفت خوراک فراہم کرنے کے لیے سینکڑوں فوڈ بینک موجود ہیں جو روزانہ ہزارہا لوگوں کو مفت کھانا فراہم کرتے ہیں۔ تاہم ان دنوں ایک فوڈ بینک اپنے ایک فیصلے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
اشتہار
1. جرمن شہر ایسن میں قائم فوڈ بینک ’ایسنر ٹافل‘ پر تنقید کی وجہ کیا ہے؟
’’ایسنر ٹافل‘‘ نامی فوڈ بینک نے جنوری کے وسط میں نئی ارکان سازی سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کر دی تھی۔ نئی پالیسی کے تحت صرف انہی لوگوں کو باقاعدگی سے خوراک فراہم کرنے کے لیے ارکان کی فہرست میں شامل کیا جائے گا جو جرمن شہریت رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران جرمنی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن ابھی تک معاشی طور پر خودمختار نہیں ہوئے لہٰذا انہیں ہی اس طرح کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کو اس سہولت سے محروم کرنے پر مقامی سیاستدانوں، تارکین وطن کے گروپوں اور دیگر فوڈ بینکوں کی طرف سے بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ مہاجرین اور تارکین وطن کے مخالف ایسے بعض گروپوں کی طرف سے اس فیصلے کو سراہا بھی گیا ہے۔
فوڈ بینک کے چیئرمین یورگ سارتر کے مطابق کھانا حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی قطاروں کے درمیان غیر ملکی زبان بولنے والوں کی تعداد گزشتہ دو برسوں کے دوران کافی بڑھ گئی ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
2. اس فوڈ بینک کی طرف سے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ کیا بنی؟
ایسنر ٹافل کی ویب سائٹ پر تو یہ بتایا گیا ہے کہ چونکہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے غیر ملکیوں کی تعداد 75 فیصد تک ہو گئی ہے اور جس کی وجہ حالیہ برسوں میں جرمنی آنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد ہے۔ اس لیے اس ادارے نے بہتر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے صرف جرمن شہریوں کو ہی آئندہ رکنیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اس فوڈ بینک کے چیئرمین یورگ سارتر نے جرمن میڈیا کو بتایا کہ کھانا حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی قطاروں کے درمیان چونکہ غیر ملکی زبان بولنے والوں کی تعداد گزشتہ دو برسوں کے دوران کافی بڑھ گئی ہے اور یہ لوگ خواتین یا بوڑھے افراد کی زیادہ عزت بھی نہیں کرتے اس لیے خواتین اور بوڑھے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امیر جرمنی میں بڑھتی غربت
02:01
This browser does not support the video element.
3. ان فوڈ بینکوں کو فنڈنگ کہاں سے ملتی ہے اور جرمنی میں اس طرح کے اندازاﹰ کتنے فوڈ بینک موجود ہیں؟
یہ فوڈ بینک لوگوں سے ڈونیشن بھی قبول کرتے ہیں مگر زیادہ تر یہ مختلف سپر مارکیٹوں اور فوڈ چین یا ریستورانوں سے ایسی خوراک جمع کرتے ہیں جسے دوسری صورت میں ضائع کیا جانا ہوتا ہے اور اسے تیار کر کے ضرورت مندوں تک پہنچاتے ہیں۔ جرمنی میں ایسے 930 سے زائد ادارے قائم ہیں جن کے تحت دو ہزار سے زائد ایسے پوائنٹس موجود ہیں جہاں سے لوگوں کو مفت خوراک فراہم کی جاتی ہے۔ ایسے فوڈ بینکس کی جرمن ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے 60 فیصد کے قریب غیر جرمن ہیں۔
پریشانی و آلام کے شکار معصوم فرشتے
اس برس عالمی یوم اطفال سے قبل شائد ہی اتنے بڑی تعداد میں بچوں نے جنگوں اور غربت سے فرار ہونے کی کوشش کی ہو۔
تصویر: Reuters/A. Sotunde
غیر یقینی مستقبل
عراق میں فعال انتہا پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی دہشت گردی سے بچنے کے لیے ہزاروں ایزدی بچے بھی رواں برس بے گھر ہو گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے کب واپس گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ عراق سے متصل ترک سرحد پر واقع ایک کیمپ میں ایک ایزدی بچے کی آنکھوں میں بھی غیر یقینی کی جھلک نمایاں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کھیلنے کے بجائے کام کاج
جرمنی میں مہاجرین کی اچانک آمد کے بعد اِن مہاجرین کو ہنگامی شیلٹر سینٹرز میں رکھا گیا ہے۔ جرمن صوبے باویریا کے ایک قصبے میں ایک بچہ رات کے لیے بستر بچھانے کی کوشش میں ہے۔ ان تنازعات نے بچوں سے ان کا پچپن بھی چھین لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Ebener
بہتر مستقبل کے لیے پرامید
اگرچہ یہ بچی یونان اور مقدونیہ کے سرحدی علاقے میں پھنسی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس معصوم بچی کا عزم دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہزاروں افراد اسی علاقے سے ہوتے ہوئے سربیا داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، جن کی اگلی منزل ہنگری تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Vojinovic
تھکن سے بے دھت
کچھا کھچ بھری ٹرین، جو بوڈاپسٹ سے میونخ کے لیے رواں تھی، اس میں مہاجر بچوں کو جہاں جگہ ملی، وہیں سو گئے۔ براستہ بلقان مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش میں یہ بہت تھک چکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/V. Simicek
جنگوں سے فرار کی کوشش
عرب ممالک میں غریب ترین تصور کیا جانے والا ملک یمن اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ہزاروں افراد اپنے بچوں اور املاک کے ساتھ وہاں جاری جنگ سے فرار کی کوشش میں ہیں۔ اس تنازعے میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
خوارک کے لیے قطاریں
عالمی مدد کے بغیر شام میں بہت سے افراد زندگی سے شکست کھا سکتے ہیں۔ یہ بچے بے صبری سے منتظر ہیں کہ انہیں کھانے کو کچھ مل جائے۔ اِدلب میں قائم ایک کیمپ میں شامی بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca
جنگ سے امن تک
تنازعات سے بچ کر یورپ پہنچنے والے بچے اور بالغ افراد وہاں کے نئے نظام سے بھی کچھ پریشان ہیں۔ ٹکٹ کیسی خریدی جائے اور سفر کیسے کیا جائے، یہ بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ اس تصویر میں زیریں سیکسنی کے ٹرانسپورٹ منسٹر تھوماس ویبل کچھ بچوں کو ٹکٹ مشین استعمال کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آگے بڑھنا ہے
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق رواں سال افریقہ سے بحیرہ روم کے راستے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار بنتی ہے۔ اس کوشش میں چھبیس سو افراد مارے بھی گئے۔ اٹلی پہنچنے والے مہاجرین آگے شمالی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں، اس لیے ان بچوں کے لیے لامپے ڈوسا کا جزیرہ صرف ایک عارضی مقام ہے۔
تصویر: Reuters/A. Bianchi
بچوں کی توجہ بٹانے کی کوشش
اسکولوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے بچوں کا دھیان بٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ میانمار میں مہاجرین کا ایک کیمپ ہے، جہاں بے گھر ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کے لیے ایک اسکول بھی قائم کیا گیا ہے۔ وہاں بچوں کے ذہنوں سے تشدد کے اثرات مٹانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
بچوں کا فوجی مقاصد کے لیے استعمال
براعظم افریقہ کے بہت سے تنازعات میں بچوں کو بھی لڑنے کی تربیت دی جاتی رہی ہے۔ مشکل ہے کہ وہاں بچے اور نو عمر لڑکے ملیشیا گروہوں کے چنگل میں آنے سے بچ نہیں سکتے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے تنازعے میں بھی بچوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Braun
بوکو حرام کی تباہ کاریاں
انتہا پسند گروپ بوکو حرام نے بالخصوص شمالی نائجیریا اور ہمسایہ ممالک میں ایک دہشت قائم کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق ان شدت پسندوں کی وجہ سے چودہ لاکھ بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔ نائجیریا کے ایک مہاجر کیمپ میں بھوکے بچے تنازعات سے ماوراء ہو کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش میں ہے۔