اب مہاجرین کے اہلخانہ بھی جرمنی آ سکیں گے، قانون کی منظوری
9 مئی 2018
جرمن کابینہ نے ووٹنگ کے ذریعے ایک نیا قانون منظور کیا ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد سے ہر ماہ جرمنی بلائے جانے والے ایک ہزار تارکین وطن یہاں پہلے سے موجود ثانوی تحفظ کے حامل تارکین وطن کے براہ راست رشتہ دار ہوں گے۔
اشتہار
مہاجرین کے خاندانوں کو جرمنی بلانے کا معاملہ ایک عرصے سے جرمن کابینہ میں التوا کا شکار رہا ہے اور اس موضوع نے حکومتی اتحاد میں موجود اختلافات کو بھی اجاگر کیا ہے۔
فیملی ری یونین کا نیا قانون کیا دے گا؟
1۔یکم اگست سے نافذالعمل ہونے والا یہ نیا قانون ملک میں ثانوی سطح کے تحفظ کے حامل مہاجرین کے اُن کے خاندانوں کے ساتھ ری یونین کے دائرہ کار کو وسیع کرے گا۔ اس طرزِ تحفظ میں تارکین وطن کو غیر محدود مدت کے لیے پناہ نہیں دی جاتی۔
2۔ یہ قانون ہر ماہ ایسے مہاجرین کے ایک ہزار براہ راست رشتہ داروں کو جرمنی آنے کی اجازت دے گا جنہیں یہاں پہلے سے ہی ثانوی درجے کا تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔
3۔ قانون کے تحت صرف مہاجرین کے شوہر یا بیوی، غیر شادی شدہ بچے اور کمسن مہاجر بچوں کے والدین جرمنی آنے کے اہل ہوں گے۔
4۔ انسانی بنیادوں پر دائر کیسوں کو ترجیح دی جائے گی، مثلاﹰ تنہا رہنے والے بچوں کو متاثر کرنے والے حالات، یا پھر شدید بیمار یا ایسے مہاجرین جنہیں سیاسی مظالم کا سامنا کرنے کا خوف ہو۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP
7 تصاویر1 | 7
5۔ غیر تکمیل شدہ کوٹوں کو ایک ماہ سے آئندہ ماہ منتقل کر دیا جائے گا۔ ایسا پہلے پانچ ماہ تک کیا جا سکے گا۔
6۔ خصوصی حالات میں ایسے مہاجرین کے خاندانوں کو بھی جرمنی آنے کی اجازت ہو گی جنہیں ممکنہ اسلام پسندوں کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم انہیں اور اُن کے رشتہ داروں کو یہ ضمانت دینی ہو گی کہ وہ جرمنی کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔
7۔ نئے قانون کا سب سے زیادہ اثر شامی مہاجرین پر ہو گ۔یہ اس لیے ہو گا کیونکہ شام سے جرمنی آنے والے پناہ گزینوں کی اکثریت وہاں ہونے والی خانہ جنگی کے باعث ملک سے فرار ہوئی تھی اور وہ یہ ثبوت نہیں دے سکے کہ انہیں ذاتی طور پر تشدد کا سامنا تھا۔ ان مہاجرین کو ثانوی درجے کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
اس درجے کے تحفظ کے حامل شامی مہاجرین کو شام میں حالات بہتر ہونے اور جرمنی کو یہ باور ہونے کے بعد کہ اب ان تارکین وطن کی وطن واپسی محفوظ ہے، جانا ہو گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا مہاجرین اس نئے قانون سے مستفید بھی ہو سکیں گے یا نہیں۔ مقامی جرمن میڈیا کے مطابق ملک بھر میں مہاجرین کے لیے قائم مختلف ایجنسیوں میں فیملی ری یونین کی چھبیس ہزار استفسارات پہلے ہی درج کرائے جا چکے ہیں جبکہ ابھی اس نئے قانون کو نافذ العمل ہونے میں تین ماہ باقی ہیں۔
ص ح/ ڈی ڈبلیو نیوز
ڈینش بزنس مین سلام الدین، انسانی اسمگلر یا مہاجرین کا مددگار