اب پنجاب کا وزیر اعلٰی کون؟ معاملہ عدالت میں
23 دسمبر 2022گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پرویز الہی کو 19 دسمبر کو آئین کے آرٹیکل 130 کی ذیلی شق 7 کے تحت اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا تھا لیکن انہیں قانونی وقت دینے کے باوجود وہ اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے اس لیے واضح ہو گیا ہے کہ وہ ایوان میں اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ پنجاب حکومت کے ایک سینیئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب میں بیوروکریسی اور پولیس کو کابینہ سے ہدایات نہ لینے کے لیے کہا گیا ہے۔
عدالت سے رجوع
ادھر چوہدری پرویز الہی کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی پانچ صفحوں پر مبنی ایک درخواست کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے اقدام کو چیلنچ کر دیا گیا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ گورنرپنجاب نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وزیراعلی کو خط لکھا ہی نہیں، خط وزیراعلی کی بجائے سپیکر کو لکھا گیا۔ ان کے مطابق پنجاب اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران گورنر دوسرا اجلاس طلب نہیں کر سکتے، گورنر کو اختیار نہیں کہ وہ غیر آٸینی طور پر وزیر اعلی کو ڈی نوٹیفاٸی کر سکے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت گورنر پنجاب کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے۔
صورتحال حیران کن نہیں، مظہر عباس
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار مظہر عباس نے بتایا کہ پاکستان میں اس طرح کی صورتحال کوئی حیران کن نہیں ہے، ماضی میں بھی اقتدار کے لیے رسہ کشی کے مناظر دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔ لیکن ان کے بقول ایسا غالبا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک غیر منتخب گورنر نے ایک منتخب وزیراعلی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں انہیں نہیں لگتا کہ گورنر کا یہ اقدام عدالت سے توثیق حاصل کر سکے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں جاری بحران کے اثرات دوسرے صوبوں کی سیاست پر بھی پڑیں گے اور خاص طور پر مرکز میں سیاسی رسہ کشی میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔
سیاسی بحران کی قیمت
ایک اور سوال کے جواب میں مظہر عباس نے بتایا کہ پاکستانی قوم کو اس سیاسی بحران کی قیمت عوامی بے چینی، سیاسی بے یقینی اور معاشی ابتری کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس صورتحال میں نظام بھی لپیٹا جا سکتا ہے یا مارشل لا آنے کا کوئی امکان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے خیال میں ابھی تک تو نظام کو برطرف کیے جانے کے آثار نہیں نظر آ رہے لیکن اگر یہ بحران زیادہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا تو پھر کسی بھی صورتحال کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔
مثبت پہلو
سیاسی امور کی ایک ماہر اور پنجابیونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کی رائے میں پاکستان میں آئین ایک ہے لیکن مختلف سیاسی تنظیمیں اپنے اپنے مفاد میں اس کی مختلف تعبیریں پیش کر رہے ہیں، ’’اگرچہ یہ صورتحال پریشان کن تو ہے لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ بہت سے مبہم آئینی امور عدالتی تشریحات کے ذریعے واضع ہوتے جا رہے ہیں اور مستقبل میں اس طرح کی قانونی پیچیدگیوں کو زیادہ بہتر طریقے سے حل کیا جا سکے گا۔ اور اس سیاسی کشمکش کے نتیجے میں صدر، وزیراعظم، گورنر، سپیکر اور وزیراعلی کے اختیارات کا بھی تعین ہوتا جا رہا ہے، جو ایک خوش آئند عمل ہے۔‘‘
یاد رہے کہ چند روز قبل عمران خان کی جانب سے کیے جانے والے ایک اعلان کے مطابق آج پنجاب اور خیبر پختونخوا کو اسمبلیوں کا تحلیل کیا جانا تھا۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے آج سہ پہر پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی بلا رکھا ہے۔ ایک اہم پیش رفت میں پاکستان مسلم لیگ نون نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اسپیکر سطبین خان اور ڈپٹی اسپیکر واثق عباسی کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے جمع کروائی جانے والی تحریک عدم اعتماد واپس نہیں لی گئی۔نون لیگی رہنماؤں کے مطابق اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اب چوہدری پرویز الہی کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک موثر نہیں رہی۔