اب کیا کیا جائے؟ اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی میٹنگز
4 نومبر 2013امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ پر الزام تھا کہ انہوں نے گذشتہ چھ برسوں سے ریاست پاکستان کے خلاف ایک جنگ شروع کر رکھی تھی۔ اس لڑائی میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ تاہم جمعے کے روز ڈرون حملے میں محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
آج پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کابینہ کو طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کی گزشتہ ہفتے امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد داخلی سلامتی کی صورت حال پر بریفنگ دیں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر داخلہ نے محسود کی ہلاکت کے بعد ہفتے کے روز کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈرون حملے پر امریکی انتظامیہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد حکومت طالبان سے مذاکرات کرنے جا رہی تھی، اس لیے حملے کے لیے ’انتہائی غیر مناسب وقت‘ چُنا گیا ہے:’’یہ امن کی کوششوں کو ’سبوتاژ‘ کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کی وجہ سے حکومتِ پاکستان اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی کوششیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
چودھری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی قیادت پاک امریکا تعلقات اور تعاون کا جلد ہی از سر نو جائزہ لے گی۔ پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار احمد کا رویہ ’انتہائی جارحانہ‘ تھا، ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی میں امریکا کے ساتھ تعلقات کا ہر حوالے سے ازسر نو جائزہ لیا جائے گا۔
اسی اثناء میں افغان صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جب کہ امن مذاکرات شروع ہونے جا رہے تھے، یہ اس کام کے لیے ’انتہائی غیر مناسب وقت‘ تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس واقعے سے امن عمل متاثر نہیں ہو گا۔
امن مذاکرات کی حامی بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی امریکی ڈرون حملے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں بر سر اقتدار جماعت تحریک انصاف نے نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی افغانستان ترسیل کا سلسلہ بند کروانے کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں قرار داد پیش کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
نواز شریف نے مئی کے مہینے میں اقتدار سنبھالتے ہی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے جاری کشت و خون کو فوری طور پر ختم کیا جا سکے۔
دوسری طرف امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی اس تنقید کو مسترد کر دیا ہے کہ حالیہ ڈرون حملہ امن مذاکرات کو متاثر کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔