1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب کیا کیا جائے؟ اسلام آباد میں اعلیٰ سطحی میٹنگز

زبیر بشیر4 نومبر 2013

طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پیدا شُدہ صورتِ حال کے تناظر میں آج پاکستانی وزیراعظم ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں، جس میں امریکا کے ساتھ تعلقات سمیت دیگر اہم سکیورٹی امور پر بات کی جا رہی ہے۔

پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مطابق حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے حکومتِ پاکستان اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی کوششیں شدید متاثر ہوئی ہیں
پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مطابق حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے حکومتِ پاکستان اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی کوششیں شدید متاثر ہوئی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ پر الزام تھا کہ انہوں نے گذشتہ چھ برسوں سے ریاست پاکستان کے خلاف ایک جنگ شروع کر رکھی تھی۔ اس لڑائی میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ تاہم جمعے کے روز ڈرون حملے میں محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

آج پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کابینہ کو طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کی گزشتہ ہفتے امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد داخلی سلامتی کی صورت حال پر بریفنگ دیں گے۔

گزشتہ جمعے کو ایک ڈرون حملے میں مارے جانے والے حکیم اللہ محسودتصویر: REUTERS/Reuters TV

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر داخلہ نے محسود کی ہلاکت کے بعد ہفتے کے روز کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈرون حملے پر امریکی انتظامیہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد حکومت طالبان سے مذاکرات کرنے جا رہی تھی، اس لیے حملے کے لیے ’انتہائی غیر مناسب وقت‘ چُنا گیا ہے:’’یہ امن کی کوششوں کو ’سبوتاژ‘ کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کی وجہ سے حکومتِ پاکستان اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی کوششیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔

چودھری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی قیادت پاک امریکا تعلقات اور تعاون کا جلد ہی از سر نو جائزہ لے گی۔ پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار احمد کا رویہ ’انتہائی جارحانہ‘ تھا، ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی میں امریکا کے ساتھ تعلقات کا ہر حوالے سے ازسر نو جائزہ لیا جائے گا۔

افغان صدر حامد کرزئی کے مطابق بھی اس ڈرون حملے کے لیے وقت کا انتخاب ’غیر موزوں‘ تھاتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

اسی اثناء میں افغان صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جب کہ امن مذاکرات شروع ہونے جا رہے تھے، یہ اس کام کے لیے ’انتہائی غیر مناسب وقت‘ تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس واقعے سے امن عمل متاثر نہیں ہو گا۔

امن مذاکرات کی حامی بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی امریکی ڈرون حملے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں بر سر اقتدار جماعت تحریک انصاف نے نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی افغانستان ترسیل کا سلسلہ بند کروانے کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں قرار داد پیش کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
نواز شریف نے مئی کے مہینے میں اقتدار سنبھالتے ہی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں تاکہ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے جاری کشت و خون کو فوری طور پر ختم کیا جا سکے۔

دوسری طرف امریکی انتظامیہ نے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی اس تنقید کو مسترد کر دیا ہے کہ حالیہ ڈرون حملہ امن مذاکرات کو متاثر کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں