نسلی ظلم کی تاریخ امریکا میں اتنی ہی پرانی ہے، جتنا خود امریکا۔ یہاں ایک آزاد معاشرے کا قیام غلاموں کی نیلامی، بچوں کی والدین سے علیحدگی، اپنی زبان بولنے پر پابندی اور بے لگام مظالم اور قتل و غارت سے ہوا۔
تصویر: privat
اشتہار
سیاہ فاموں پر جو ظلم روا رکھے گئے انہیں اس کا احساس لگا تار ہوتا رہا اور انہیں جلد محسوس ہو گیا کہ اس ظلم کی چکی میں پِسنے والے وہ تنہا نہیں ہیں۔ محمد علی کلےکو ویتنام جنگ کا ایندھن بننے کا کہا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر جنگ میں جانے سے انکار کر دیا کہ امریکا سفید فام لوگوں کے لیے تو جنت کا منظر رہا ہے لیکن بیڑیوں میں جکڑے ہوئے غلام بن کر آنے والے سیاہ فاموں کے لیے یہ ایک نہ ختم ہونے والا ڈراؤنا خواب رہا ہے، ''میں اس خون میں لتھڑے نظام کا سپاہی بن کر ویت نام کی جنگ نہیں لڑوں گا۔‘‘
امریکیوں کے دلوں پر راج کرنے والے محمد علی کو اس 'جرم‘ پر پانچ سال قید بامشقت کاٹنا پڑی۔ عالمی باکسنگ چمپئیں کا اعزاز واپس کرنا پڑا۔ مالی مشکلات کا سامنا ہوا لیکن انہوں نے اپنے بے داغ کردار اور بہادری سے اپنی سچائی ثابت کی اور ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔
لیکن یہ لڑائی صدیوں پر محیط ہے۔ یہی آواز اپنے اپنے وقت میں روزا پارک، مارٹن لوتھر کنگ، میلکم ایکس اور لا تعداد دوسرے سیاہ فام مردوں اور عورتوں نے بھی اُٹھائی۔ ان آواز اُٹھانے والوں میں باراک اوباما کا نام بھی لیا جا سکتا ہے لیکن جارج فلوئیڈ کی موت پر پوری دنیا سے، جس غم و غصے اور ایکتا کا اظہار کیا گیا ہے، اس کی مثال پوری سیاہ فام جد و جہد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جارج نے اپنا جو دکھ اپنی ماں کو ایک پولیس آفیسر کے گھٹنے کے نیچے اپنا سانس ٹوٹتے ہوئے بیان کیا تھا، وہ لاک ڈاؤن کے موسم میں کروڑوں دلوں کو کیسے چھو گیا؟
امریکا کے سیاہ فاموں نے سپورٹس، موسیقی، مسلح افواج میں خدمات، سیاست اور چرچ کی دنیا میں اپنی کارکردگی سے بہت نام پیدا کیا۔ کولن پاول امریکا کے آرمی چیف اور کابینہ کے اہم رکن رہے، باراک اوباما صدر رہے لیکن نسلی منافرت کے بت کو ایسی ضرب کسی نے نہیں لگائی، جیسی اب کی بار لگی ہے۔
اب کی بار دکھ کے مارے سیاہ فام نسل پرست گوروں سے ٹکرانے باہر نہیں نکلے۔ اب انصاف اور برابری پر یقین رکھنے والے ہر نسل، قوم، مذہب، عقیدے اور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ، پولیس افسران اور سیاست دان ، سب کے سب اس ظلم کے خلاف سیلاب کے ریلے کی طرح آئے ہیں، جو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ اس احتجاج کی دعوت کسی جماعت، کسی لیڈر، کسی بڑے نام والے نہیں دی۔ جارج کے دل کی آواز ایک غیر محسوس طریقے سے تمام محبت کرنے والے دلوں میں پہنچ گئی ہے۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M:.Schreiber
7 تصاویر1 | 7
ایک ایسی تبدیلی جو اس سے پہلے کہیں نظر نہیں آئی، وہ یہ ہے کہ پولیس، مقامی حکومتوں، کانگریس اور سینیٹ کے لیڈروں نے گھٹنے ٹیک کر جارج اور ظلم کے شکار ہونے والوں کو احترام، دوستی، انصاف اور امن کا پیغام دیا ہے۔ ہتھیار اٹھانےکی روایت کو چھوڑتے ہوئے ہتھیار ڈال کر دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں کوئی جھجک، شرم یا گھبراہٹ محسوس نہیں کی۔ دلوں کے درمیان جو برف کی دیوار تھی، وہ پگھلنا شروع ہو گی ہے۔ لوگوں کو رنگ اور نسل کے ظاہری فرق کی پیچھے ایکتا نظر آنے لگ گئی ہے، یہ ایسی تبدیلی ہے، جو پہلے نظر نہیں آئی۔
اب کی بار جارج فلوئیڈ کا غم اور سیاہ فام شہریوں کا غصہ دنیا بھر کے مظلوموں کی امید میں بدل گیا ہے۔ خوف نے سڑکوں اور چوراہوں پر گردن جھکا دی ہے اور امید لاک ڈاؤن توڑ کر باہوں میں باہیں ڈالے سر بازار رقص کر رہی ہے۔ کھلے دن میں جو اندھیرا چھایا ہوا تھا اُس نے کالے گورے، اونچے نیچے، دائیں بائیں میں فرق مٹا کے سب کو ایک قطار میں لا کھڑا کیا ہے۔ اب صرف دو فریق ہیں درد دل رکھنے والے اور بے درد۔
یہ درد اُس رات کا ثمر ہے
جو تجھ سے مجھ سے عظیم تر ہے
یہ صرف ایک نئی سیاست کی فتح نہیں ہے۔ یہ ایک نئی اخلاقیات کی فتح ہے، جس کی بنیاد 'میں اور تو‘ پر نہیں ہم پر ہے۔ اب کی بار یہ مختلف ہے۔