1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اتحادی جماعتوں کو حزب اختلاف کی پرکشش پیشکش

14 مارچ 2022

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد سے ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ حکومت اپنے اتحادیوں کو منانے میں مصروف ہے، تو حزب اختلاف کی جماعتیں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔

تصویر: Pakistan peoples party

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ 

حزب اختلاف کا پہلا ہدف حکومت کی دو اہم اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم تھیں۔ ان دونوں جماعتوں کو بعض پرکشش یقین دہانیوں کے ذریعے اس بات پر آمادہ کر لیا گیا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں حزب اختلاف کا ساتھ دیں گی۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلی پنجاب اور ایم کیو ایم کی صوبے میں وزارتوں کے علاوہ بلدیاتی امور میں شراکت داری کے ساتھ سندھ کے گورنر کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔ مسلم لیگ ق کے قریبی ذرائع کے مطابق تمام امور تحریری طور پر انجام دیے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے پیپلز پارٹی کے حوالے سے تحفظات تھے لہذا مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف نے تمام مطالبات کو یقینی بنانے کی ضمانت دی ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری کا کردار بہت اہم ہے: وڑائچ

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز سیاسی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ان کے خیال میں حکومت کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کی سوچ میں تبدیلی آ گئی ہے۔ دونوں جماعتیں حزب اختلاف کے قریب آ گئی ہیں۔

سہیل وڑائچ کے بقول،''یقینا یہ بات اہم ہے کہ کچھ مناسب یقین دہانی کے بعد ہی دونوں جماعتیں حزب اختلاف کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ ہوئی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اب اتنی مستحکم نظر نہیں آ رہی جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتی تھی،''اس سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری کا کردار بہت اہم ہے، جنہوں نے اپنے کارڈ بہت بہتر انداز میں استعمال کیے ہیں۔‘‘

سہیل وڑائچ کے بقول حکومت کی اس سے بڑی بے بسی کیا ہو سکتی ہے کہ حکومتی ادارے ان کی مدد نہیں کر پا رہے۔ ان کے خیال میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔

’خان صاحب اجازت ہو تو اب گھبرا لیں؟‘

01:41

This browser does not support the video element.

 تحریک انصاف کا دعویٰ

وفاقی وزیر اسد عمرنے27 مارچ کو ڈی چوک پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ حکمراں جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ 10 لاکھ لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور یوں عوامی دباؤ کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی۔

مگر دوسری جانب اسی جماعت کے سابق سینیٹر فیصل واؤڈا نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ حزب اختلاف 172 کی جگہ 182 ارکان کو بھی لے آئے تب بھی کوئی عمران خان کی حکومت ختم نہیں کرسکتا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ عمران خان وفاداری تبدیل کرنے والے ارکان اور حزب اختلاف کے ساتھ وہ سلوک کرے گا جو ان کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔

معجزہ ہی وزیر اعظم کو بچا سکتا ہے: شیرازی

سینئر اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں حکومت کے حوالے سے ماحول سازگار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے متحرک جماعتیں بہت محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آخری لمحوں تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ابھی تک ارکان اسمبلی کو فون بھی نہیں آ رہے۔

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ وہ محتاط انداز میں بہت سارے معاملات جاننے کے باوجود صرف یہ کہہ سکتی ہیں کہ اسلام آباد کا موسم خوشگوار نہیں ہے۔ آخری لمحوں تک انتظار کرنا ہوگا،'' اسلام آباد کا موسم تبدیل ہو رہا ہے۔ بہار آ رہی ہے، خزاں کے پتے جھڑ چکے ہیں۔ اب کوئی معجزہ ہی وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو بچا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ناراض ارکان کو منانے میں بہت دیر کردی ہے۔ ہر لمحہ حکومت کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہے۔

خیبرپختونخوا میں بھی بغاوت کی بو

مسلم لیگ ق کے قریبی حلقے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کی وزارت اعلی کا قلمدان سپرد کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ ایک بات بھی طے ہے کہ مرکز میں قائد ایوان کی تبدیلی کے بعد صوبائی اسمبلیاں برقرار رہیں گی کیوں کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومتوں کی تبدیلی میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ 

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج اس وقت بڑھی جب پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری میں حکومت کی طرف سے تاخیر ہوئی۔ اداروں سے بڑھتی ہوئی اس خلیج کا فائدہ حزب اختلاف نے بھرپور طریقے سے اٹھایا۔

ادھر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اداروں کی مداخلت کے معاملے کو بھی آرمی چیف نے یہ اعلان کر کے واضح کردیا کہ وہ غیر جانبدار رہیں گے۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں اگر آخری لمحوں میں وسیع تر قومی مفاد آڑے نہیں آیا تو تحریک عدم اعتماد کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پیپلز پارٹی کا دعوی ہے کہ تحریک انصاف کے کم از کم 15 ارکان تحریری طورپر آصف علی زرداری کو اپنی حمایت کا مکمل یقین دلا چکے ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے 21 مارچ کو قومی اسمبلی اجلاس طلب کیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے اجلاس 28 مارچ کو ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں