1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اتر پرديش حکومت کا ’نیم اینڈ شیم‘ ہتھکنڈا ناکام

جاوید اختر، نئی دہلی
9 مارچ 2020

بھارت ميں الہ آباد ہائی کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران مبينہ طور پر تشدد ميں ملوث افراد کی تصاوير والے ہورڈنگز يا بڑے بڑے اشتہارات ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔ يہ رياستی حکومت کے ليے ايک بڑا دھچکا ہے۔

Indien Proteste gegen Staatsbürgerschaftsgesetz
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kanojia

بھارتی رياست اتر پرديش کے شہر الہ آباد کے ہائی کورٹ نے بھارتيہ جنتا پارٹی کی حکومت کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی اقدام بھارتی آئین کی خلاف ورزی اور متعلقہ افراد کی پرائیویسی میں غیر ضروری مداخلت کے زمرے ميں آتا ہے۔ عدالت نے لکھنؤ کے اہم چوراہوں پر آویزاں ہورڈنگز ہٹانے سے متعلق حکم پر پیش رفت کے حوالے سے بھی سولہ مارچ تک رپورٹ طلب کر لی ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے عوامی مقامات پر ہورڈنگز کے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اتوار آٹھ مارچ کو چھٹی کا دن ہونے کے باوجود، معاملے پر کارروائی کی۔ چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا پر مشتمل بينچ نے بی جے پی کی قیادت والی ریاست کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت سے پوچھا کہ ایسا کس قانون کے تحت کیا گیا ہے؟ عدالت نے اس طرح کے ہورڈنگز اور بینرز لگانے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے پرائیوسی کے خلاف، شہریوں کی آزادی پر قدغن اور ان کے ساتھ سخت ناانصافی قرار دیا۔ عدالت نے شہریوں کے حوالے سے اس طرح کا رویہ اپنانے پر یوگی حکومت پر تنقيد بھی کی۔

تصویر: IANS

لکھنؤ کی ضلعی انتظامیہ نے پانچ مارچ کی رات ستاون افراد کے نام، پتے اور تصاویر والی ہورڈنگز شہر کے مختلف چوراہوں پر لگا دی تھیں۔ ان افراد سے اٹھاسی لاکھ روپے سے زیادہ بطور ہرجانہ وصول کرنے کی بات بھی کی گئی تھی اور مقررہ مدت کے اندر رقم ادا نہیں کرنے پر ان کی املاک قرق کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ لوگ گزشتہ برس انيس دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پر تشدد مظاہروں میں شامل تھے۔ ان مظاہروں کے دوران شہر کے کئی علاقوں میں توڑ پھوڑ ہوئی تھی اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا تھا۔ پولیس نے اس معاملے میں ڈيڑھ سو سے زائد افراد کے خلاف رپورٹ درج کی تھی۔ ابتدائی تفتيش کے بعد ستاون افراد کو قصور وار قرار دیا گيا تھا اور 'نیم اینڈ شیم‘ کے نام سے ان افراد کی تصویروں پر مشتمل ہورڈنگز نصب کیے گئے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس طرح کے اشتہارات لگا کر ان افراد کو عوام میں شرمندہ کیا جانا چاہيے، جو مبینہ طور پر تشدد میں ملوث ہیں۔

ہورڈنگز میں جن ستاون افراد کی تصویریں شائع کی گئی تھیں ان میں شیعہ مذہبی رہنما مولانا سیف عباس، سماجی کارکن اور کانگریس کی رہنما صدف جعفر اور انڈین پولیس سروس کے سابق آفيسر ایس آر دارا پوری شامل تھے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ایس آر دارا پوری نے کہا، ''حکومت کا اقدام یکسر غیر قانونی تھا۔ یوگی حکومت کے فیصلے سے ہماری زندگی اور آزادی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ ان ہورڈنگز کی وجہ سے ہمارے وقار کو کافی نقصان پہنچا ہے۔‘‘ صدف جعفر نے حکومت کے اقدام کو غیر اخلاقی قرار دیا اور کہا کہ جب عدالت میں ان کے خلاف کوئی الزام اب تک ثابت نہیں ہو پایا، تو کس بنیاد پر انہیں عوامی طور پر ذلیل اور رسوا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تمام اپوزیشن جماعتوں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی یوگی حکومت کے اس اقدام کی سخت نکتہ چینی کی، جس کے بعد ہائی کورٹ نے از خود اس معاملے کا نوٹس لیا اور اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ عدالت نے اس معاملے میں لکھنؤ کے ضلعی مجسٹریٹ اور پولیس کمشنر کو بھی طلب کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں