1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اتنی کامیابیوں کا کبھی سوچا نہ تھا، مصباح الحق

عاصمہ کنڈی
8 اپریل 2017

ٹیسٹ کرکٹ کو خیر باد کہنے والے پاکستانی کپتان مصباح الحق کے بقول بھارت کے خلاف موہالی ورلڈ کپ سیمی فائنل ان کے کیریئر کا سب سے مایوس کن جبکہ عالمی نمبر ایک ٹیم بننے پر آئی سی سی گرز اٹھانا سب سے یادگار لمحات ہیں۔

Pakistan DW - Interview mit Misbah ul Haq
تصویر: DW/T. Saeed

اپنے آخری دورے پر ویسٹ انڈیز روانہ ہونے سے پہلے لاہور میں ڈی ڈبلیو کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے عظیم کرکٹر مصباح الحق کا کہنا تھا کہ میانوالی جیسے دور دراز اور نظر انداز کیے جانے والے علاقے میں رہتے ہوئے انہوں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ وہ ایک دن پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان بن جائیں گے۔

مصباح سے پہلے پاکستان کے زیادہ تر کپتان کراچی اور لاہورجیسے بڑے شہروں سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں کسی نہ کسی انداز میں سیاسی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ البتہ مصباح کہتے ہیں،’’ میں نے آگے بڑھنے کے لیے کبھی سہاروں پر یقین نہیں رکھا نہ کبھی کپتانی کے پیچھے بھاگا۔ سچی لگن اور مسلسل محنت سے راستے خود بخود کھلتے چلے گئے۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ اچھے پیشہ ور کھلاڑی ہیں تو کارکردگی ایک دن سب رکاوٹوں کو دور کر دے گی۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے نمائندے طارق سعید مصباح الحق کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئےتصویر: DW/T. Saeed

مصباح الحق کو گزشتہ ہفتے وزڈن کرکٹر آف دی ایئر کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ وہ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ یعنی 24 ٹیسٹ جیتنے والے کپتان ہیں۔ انہیں انگلینڈ جیسی ٹیم کو کلین سویپ کرنے اور پاکستان کو پہلی بار دنیا کی نمبر ون ٹیسٹ ٹیم بنانے والے کپتان کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مصباح کے بقول ہر روز بہتر سے بہتر ہونے کی کوشش اور نظم ضبط کی پاسداری ہی ان کی کامیابیوں کا راز رہی۔

2012 میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی انٹرنیشل کرکٹ سے جبری ریٹائرمنٹ کو مصباح آج بھی افسوس ناک قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا،’’میں اس وقت مکمل فٹ اور فارم میں تھا اور کھیلنا چاہتا تھا لیکن کرکٹ بورڈ کا خیال تھا کہ ٹوئنٹی ٹوئنٹی صرف نوجوانوں کا کھیل ہے اور یوں مجھے ایک ایسے فارمیٹ سے الگ ہونا پڑا جو ٹیسٹ کرکٹ جیسا مشکل فارمیٹ کھیلتے ہوئے میرے لیے زیادہ آسان تھا۔ کئی بار آپ کو مستقبل کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے۔‘‘

مصباح کہتے ہیں کہ بھارت کے خلاف پہلا ورلڈ ٹوئنٹی ٹوئنٹی فائنل، موہالی سیمی فائنل اور حالیہ دورہ آسٹریلیا ان کے کیریئر کے مایوس کن لمحات تھے لیکن وہ اپنی کامیابیوں سے مطمئن ہیں۔

پاکستانی تاریخ کا بہترین کپتان کون ہے؟ اس کے لیے مصباح الحق کا موازنہ عمران خان اور اے ایچ کاردار سے کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں مصباح کہتے ہیں کہ کاردار نے پاکستان کی دنیائے کرکٹ میں پہچان کرائی اور عمران خان اُن کے رول ماڈل رہے ہیں،’’ان کے  ساتھ میرا نام آنا ہی میرے لیے قابل فخر ہے۔‘‘

مصباح کی طرح ٹیسٹ کرکٹ سے باعزت ریٹائرمنٹ لینے سے نوبت ماضی میں کسی پاکستانی کپتان کے حصے میں نہیں آئی۔ مصباح نے بتایا کہ اُن کا فیصلہ سن کر سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور پرستاروں کی جانب سے جو رد عمل آیا ہے اس پر وہ ان کے بے حد ممنون ہیں،’’سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر ایسے عوامی جذبات دیکھ کر بہت خوشی اور طمانیت کا احساس ہوا‘‘۔

تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

مصباح الحق کہتے ہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑنے کا فیصلہ انہوں نے سن 2016 میں ہی کر لیا تھا صرف ٹیم کی موسم سرما میں مشکل دوروں کی وجہ سے اُسے ٹالے رکھا البتہ کرکٹ کھیلنے سے انکا دل ابھی بھرا نہیں۔ ان کےبقول انہوں نے حال ہی میں فیصل آباد کو گریڈ ٹوکا چیمپئن بنوایا ہے اور یہ ٹورنامنٹ کھیل کر وہ اتنے ہی محظوظ ہوئے جتنے کوئی بین الاقوامی میچ کھیل کر ہوتے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ جیت کر فیصل آباد کی ٹیم کو دوبارہ فرسٹ کلاس سٹیٹس مل گیا،’’میں چاہتا ہوں کہ نئے لڑکوں کے ساتھ رہ کر ابھی کچھ عرصہ کھیلتا رہوں تاکہ وہ مجھ سے سیکھ سکیں۔ میں فیصل آباد اور سرگودھا میں نوجوان کھلاڑیوں کےلیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے مستقبل میں مزید کیا کرنا ہے اسکا فی الحال نہیں سوچا۔‘‘

 

عاصمہ کنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ کنڈی نے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں