اتنے زیادہ پاکستانی یورپ پہنچنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟
1 مارچ 2023
شدید معاشی بحران، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عدم تحفظ اور ملازمتوں کی کمی جیسے عوامل بہت سے پاکستانیوں کو یورپ پہنچنے کے لیے خطرناک سفر کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
اشتہار
گزشتہ اتوار کے روز تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی ایک کشتی کے ڈوبنے سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور ان میں بہت سے پاکستانی بھی شامل تھے۔ اس جان لیوا حادثے نے جنوبی ایشیا کے اس ملک میں سنگین معاشی صورتحال کے بارے میں ایک بحث چھیڑ دی ہے، جو بہت سے نوجوانوں کو بیرون ملک بہتر مستقبل کی تلاش میں ایسے خطرناک سفر کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
جنوبی اٹلی کی ساحلی چٹانوں سے ٹکرانے کے بعد مہاجرین سے بھری یہ کشتی ٹوٹ گئی تھی اور اس کے نتیجے میں 14 بچوں سمیت کم از کم 64 افراد ہلاک ہوئے۔ زندہ بچ جانے والے تقریبا 80 مہاجرین کا کہنا تھا کہ کشتی پر تقریباً 180 سے 200 افراد سوار تھے۔
اطالوی حکام نے اس حادثے کے تناظر میں ایک ترک اور دو پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
بہت سے پاکستانیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے دن بدن بڑھتے ہوئے معاشی بحران کی وجہ سے لوگ خطرناک اور غیر قانونی طریقوں سے بھی بیرون ملک نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دگنی ہو کر 14.6 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں مزید نو ملین افراد ''غربت کی دلدل‘‘ میں پھنس سکتے ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی 220 ملین آبادی کا پانچواں حصہ پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
یہ تارکین وطن بہتر مستقبل کے خواب لیے یورپ چلے تھے
02:12
اس وقت افراط زر کی شرح تقریباﹰ 30 فیصد کے قریب ہے، دولت کی تقسیم کا فرق بہت زیادہ ہے اور امیروں کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگیاں بہت کم ہیں۔ صنعتی گروپوں کے مطابق صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں تقریباً 70 لاکھ کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے یہ شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
ماہر معاشیات اور روٹس فار ایکویٹی نامی این جی او کی بانی عذرا طلعت سعید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹیکس سے بچنے اور ٹیکس چوری کے بڑھتے ہوئے مسئلے نے حکومتی قرضوں کے بوجھ کو بھی بڑھا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیہی سطح پر پانچ فیصد امراء کل زرعی زمین کے تقریباً دو تہائی حصے پر قابض ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ امیر جاگیردار ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ٹیکسوں کا بوجھ صرف غریبوں پر ہی ڈالا جاتا ہے۔‘‘
اشتہار
ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت کو معیشت کو متحرک کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ مکانات اور سڑکیں بنا کر پاکستان مزید لاکھوں افراد کو غربت میں جانے سے روک سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ملکی نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
صوبہ پنجاب کے علاقے پنڈی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے ایک 42 سالہ مزدور میاں غلام شبیر نے کہا کہ ملک میں معاشی مواقع کی کمی کے باعث پاکستانی نوجوان شدت سے بیرون ملک ہجرت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں معاشی بحالی کی کوئی امید نہیں ہے جبکہ انہوں نے خود 2015ء میں اٹلی ہجرت کرنے کی کوشش کی تھی۔
غلام شبیر کا مزید کہنا تھا، ''دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ محنت کرنے کے بعد بھی مزدور یہاں کچھ زیادہ نہیں کما پاتے اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہی کام اٹلی یا کسی دوسرے مغربی ملک میں کریں تو وہ کافی پیسے کما سکتے ہیں، جن سے ان کے خاندانوں کی مدد بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ''اسی لیے لوگ بیرون ملک روزگار کی تلاش اور بہتر مستقبل کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے رہیں گے۔‘‘
عوامی ورکرز پارٹی کی لاہور میں مقیم رہنما عابدہ چوہدری نے نشاندہی کی کہ پاکستان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کا گھر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، عدم تحفظ، ملازمتوں کی کمی اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ''ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں بند کرتے ہیں یا انہیں ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اٹلی جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔‘‘
ایس خان، اسلام آباد (ا ا/ ع ب)
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘