پاکستان کے اکثریتی طور پر غریب عوام کے منتخب نمائندے بننے کے خواہش مند کئی ارب پتی سیاست دانوں نے اپنے اثاثوں کی حقیقی مالیت ظاہر نہیں کی۔ کیا قانون اور متعلقہ ادارے انتخابی امیدواروں کی غلط بیانی کو نظرانداز کر دیں گے؟
اشتہار
مبصرین یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اپنے اثاثوں کی حقیقی مالیت ظاہر نہ کرنے والے انتخابی امیدواروں کے خلاف کارروائی ہو گی اور وہ نااہل قرار دے دیے جائیں گے۔ دوسری طرف کئی ناقدین اس وجہ سے حیرت کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ بہت سے سیاست دانوں نے انتخابی امیدواروں کے طور پر اپنے اثاثوں کی قیمتیں بہت ہی کم ظاہر کی ہیں اور الیکشن کمیشن تاحال اس حوالے سے خاموش ہے۔
مثال کے طور پر بلاول ہاؤس کی قیمت چالیس لاکھ کے قریب اور اسلام آباد کے مہنگے علاقے ایف ایٹ میں واقع راجہ پرویز اشرف کے گھر کی قیمت صرف چھبیس لاکھ کے قریب بتائی گئی ہے۔ عمران خان نے بھی اپنے بنی گالا میں واقع گھر کی قیمت بہت کم ظاہر کی ہے۔
پاکستانی الیکشن کمیشن کے ترجمان ندیم قاسم نے امیدواروں کی طرف سے ان کے اثاثوں کی قیمتیں مارکیٹ سے بہت کم ظاہر کیے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’قانون کے مطابق امیدوار اپنے اثاثوں کی موجودہ مالیت ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔ ابھی یہ معاملہ ریٹرننگ آفیسرز کے پاس ہے۔ انتخابات جیتنے والے امیدوار اپنے سالانہ اثاثوں اور انتخابی اخراجات سے متعلق بیانات الیکشن کمشن کو جمع کراتے ہیں۔ جب یہ بیانات جمع کرائے جائیں گے، تو کمیشن جانچ پڑتال کرے گا اور اگر ان سیاست دانوں نے اپنی املاک کی موجودہ ’مارکیٹ ویلیو‘ ظاہر نہیں کی، تو یہ بات ’غلط بیانی‘ کے زمرے میں آئے گی، جس پر متعلقہ امیدوار کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی ہو گی۔ اس کے علاوہ لوگ آزادانہ طور پر عدالتوں سے بھی رجوع کر سکتے ہیں کہ ان انتخابی امیدواروں نے اپنے اثاثوں کے معاملے میں غلط بیانی کی ہے۔‘‘
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اس مسئلے سے متعلق قانونی ماہرین کی رائے بھی منقسم ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج، جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں املاک کی مارکیٹ ویلیو فروعی مسئلہ ہے۔ دولت ٹیکس اور انکم ٹیکس میں ہم ہر چیز کی قدر کو دیکھتے ہیں اور میرے خیال سے اسی اصول کا یہاں بھی اطلاق ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر بلاول ہاؤس بیس برس پہلے خریدا گیا تھا، تو خریدار کے وسائل کیا تھا اور رقم کا بندوبست کیسے ہوا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ مارکیٹ ویلیو نہ ظاہر کرنے کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘
معروف قانون دان عابد حسن منٹو کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’قانون صرف اثاثے ظاہر کرنے کی بات کرتا ہے۔ منطقی بات تو یہی ہے کہ آپ اپنے اثاثوں کی موجود مالیت ظاہر کریں۔ اگر آپ کے دادا نے کوئی زمین سو روپے میں خریدی تھی، اور اب وہ چالیس کروڑ کی ہوگئی ہے، تو آپ اس کی قیمت سو روپے تو نہیں دکھائیں گے۔آپ کویقیناً اس کی موجودہ قیمت ہی دکھانا ہوگی۔ لیکن چونکہ قانون میں ابہام ہے، اس لیے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اثاثوں کی موجودہ مالیت ظاہر نہ کرنے والوں کے سروں پر نااہلی کی تلوار انتخابات کے بعد بھی لٹکتی رہے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سپریم کورٹ کے حکم کے تحت تیار ہونے والے حلف نامے میں دونوں سوالات موجود ہیں: (کوئی اثاثہ) کس قیمت پر خریدا گیا تھا اور اس کی موجودہ قیمت کیا ہے؟ اگر کسی نے اپنی املاک کی کھلی منڈی میں موجودہ مالیت نہیں لکھی، تو یہ غلط بیانی کے زمرے میں آئے گا اور متعلقہ امیدوار یا امیدواروں کو نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ میرے خیال میں جن ر یٹرننگ افسران نے اپنی املاک کی موجودہ حقیقی مالیت ظاہر نہ کرنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے ہیں، انہیں بھی معطل کر دیا جانا چاہیے۔‘‘
جوتا کس نے پھینکا؟
حالیہ کچھ عرصے میں کئی ملکوں کے سربراہان اور سیاستدانوں پر جوتا پھینکے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت سابق امریکی صدر بُش پر پھینکے گئے جوتے کو ملی اور تازہ شکار سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بنے۔
تصویر: AP
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا اُن کے عراقی کے دورے کے دوران پھینکا گیا۔ یہ جوتا ایک صحافی منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر سن 2008 کو پھینکا تھا۔
تصویر: AP
سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ
دو فروری سن 2009 کو لندن میں سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ پر ایک جرمن شہری مارٹن ژانکے نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ جوتا جیا باؤ سے کچھ فاصلے پر جا کر گرا تھا۔
تصویر: Getty Images
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد
ایرانی صوبے مغربی آذربائیجدان کے بڑے شہر ارومیہ میں قدامت پسند سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ یہ واقعہ چھ مارچ سن 2009 کو رونما ہوا تھا۔ احمدی نژاد کو سن 2006 میں تہران کی مشہور یونیورسٹی کے دورے پر بھی جوتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: fardanews
سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ
چھبیس اپریل سن 2009 کو احمد آباد شہر میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پر ایک نوجوان نے جوتا پھینکا، جو اُن سے چند قدم دور گرا۔
تصویر: Reuters/B. Mathur
سوڈانی صدر عمر البشیر
جنوری سن 2010 میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ’فرینڈ شپ ہال‘ میں صدر عمر البشیر پر جوتا پھینکا گیا۔ سوڈانی صدر کا دفتر اس واقعے سے اب تک انکاری ہے، لیکن عینی شاہدوں کے مطابق یہ واقعہ درست ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Hamid
ترک صدر رجب طیب ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر فروری سن 2010 میں ایک کرد نوجوان نے جوتا پھینک کر کردستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ کرد شامی شہریت کا حامل تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat
سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری کے برطانوی شہر برمنگھم کے دورے کے موقع پر ایک پچاس سالہ شخص سردار شمیم خان نے اپنے دونوں جوتے پھینکے تھے۔ یہ واقعہ سات اگست سن 2010 کا ہے۔
تصویر: Getty Images
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر
چار ستمبر سن 2010 کو سابق برطانوی وزیر ٹونی بلیئر کو ڈبلن میں جوتوں اور انڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈبلن میں وہ اپنی کتاب ’اے جرنی‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔
تصویر: Imago/i Images/E. Franks
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ
چار نومبر سن 2010 کو کیمبرج یونیورسٹی میں تقریر کے دوران سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ پر جوتا پھینکا گیا۔ جوتا پھینکنے والا آسٹریلیا کا ایک طالب علم تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف
لندن میں ایک ہجوم سے خطاب کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ واقعہ چھ فروری سن 2011 کو پیش آیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق تائیوانی صدر ما یِنگ جُو
تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جُو پر اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں سے کسی شخص نے جوتا آٹھ ستمبر سن 2013 کو پھینکا۔ تاہم وہ جوتے کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو گیارہ مارچ سن 2018 کو ایک مدرسے میں تقریر سے قبل جوتا مارا گیا۔ اس طرح وہ جوتے سے حملے کا نشانہ بننے والی تیسری اہم پاکستانی سیاسی شخصیت بن گئے۔