1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اثاثوں کی غلط مالیت اور انتخابی نااہلی کا خطرہ

عبدالستار، اسلام آباد
25 جون 2018

پاکستان کے اکثریتی طور پر غریب عوام کے منتخب نمائندے بننے کے خواہش مند کئی ارب پتی سیاست دانوں نے اپنے اثاثوں کی حقیقی مالیت ظاہر نہیں کی۔ کیا قانون اور متعلقہ ادارے انتخابی امیدواروں کی غلط بیانی کو نظرانداز کر دیں گے؟

تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

مبصرین یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اپنے اثاثوں کی حقیقی مالیت ظاہر نہ کرنے والے انتخابی امیدواروں کے خلاف کارروائی ہو گی اور وہ نااہل قرار دے دیے جائیں گے۔ دوسری طرف کئی ناقدین اس وجہ سے حیرت کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ بہت سے سیاست دانوں نے انتخابی امیدواروں کے طور پر اپنے اثاثوں کی قیمتیں بہت ہی کم ظاہر کی ہیں اور الیکشن کمیشن تاحال اس حوالے سے خاموش ہے۔

مثال کے طور پر بلاول ہاؤس کی قیمت چالیس لاکھ کے قریب اور اسلام آباد کے مہنگے علاقے ایف ایٹ میں واقع راجہ پرویز اشرف کے گھر کی قیمت صرف چھبیس لاکھ کے قریب بتائی گئی ہے۔ عمران خان نے بھی اپنے بنی گالا میں واقع گھر کی قیمت بہت کم ظاہر کی ہے۔

پاکستانی الیکشن کمیشن کے ترجمان ندیم قاسم نے امیدواروں کی طرف سے ان کے اثاثوں کی قیمتیں مارکیٹ سے بہت کم ظاہر کیے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’قانون کے مطابق امیدوار اپنے اثاثوں کی موجودہ مالیت ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔ ابھی یہ معاملہ ریٹرننگ آفیسرز کے پاس ہے۔ انتخابات جیتنے والے امیدوار اپنے سالانہ اثاثوں اور انتخابی اخراجات سے متعلق بیانات الیکشن کمشن کو جمع کراتے ہیں۔ جب یہ بیانات جمع کرائے جائیں گے، تو کمیشن جانچ پڑتال کرے گا اور اگر ان سیاست دانوں نے اپنی املاک کی موجودہ ’مارکیٹ ویلیو‘ ظاہر نہیں کی، تو یہ بات ’غلط بیانی‘ کے زمرے میں آئے گی، جس پر متعلقہ امیدوار کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی ہو گی۔ اس کے علاوہ لوگ آزادانہ طور پر عدالتوں سے بھی رجوع کر سکتے ہیں کہ ان انتخابی امیدواروں نے اپنے اثاثوں کے معاملے میں غلط بیانی کی ہے۔‘‘

دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اس مسئلے سے متعلق قانونی ماہرین کی رائے بھی منقسم ہے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج، جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں املاک کی مارکیٹ ویلیو فروعی مسئلہ ہے۔ دولت ٹیکس اور انکم ٹیکس میں ہم ہر چیز کی قدر کو دیکھتے ہیں اور میرے خیال سے اسی اصول کا یہاں بھی اطلاق ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر بلاول ہاؤس بیس برس پہلے خریدا گیا تھا، تو خریدار کے وسائل کیا تھا اور رقم کا بندوبست کیسے ہوا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ مارکیٹ ویلیو نہ ظاہر کرنے کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘

معروف قانون دان عابد حسن منٹو کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’قانون صرف اثاثے ظاہر کرنے کی بات کرتا ہے۔ منطقی بات تو یہی ہے کہ آپ اپنے اثاثوں کی موجود مالیت ظاہر کریں۔ اگر آپ کے دادا نے کوئی زمین سو روپے میں خریدی تھی، اور اب وہ چالیس کروڑ کی ہوگئی ہے، تو آپ اس کی قیمت سو روپے تو نہیں دکھائیں گے۔آپ کویقیناً اس کی موجودہ قیمت ہی دکھانا ہوگی۔ لیکن چونکہ قانون میں ابہام ہے، اس لیے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اثاثوں کی موجودہ مالیت ظاہر نہ کرنے والوں کے سروں پر نااہلی کی تلوار انتخابات کے بعد بھی لٹکتی رہے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سپریم کورٹ کے حکم کے تحت تیار ہونے والے حلف نامے میں دونوں سوالات موجود ہیں: (کوئی اثاثہ) کس قیمت پر خریدا گیا تھا اور اس کی موجودہ قیمت کیا ہے؟ اگر کسی نے اپنی املاک کی کھلی منڈی میں موجودہ مالیت نہیں لکھی، تو یہ غلط بیانی کے زمرے میں آئے گا اور متعلقہ امیدوار یا امیدواروں کو نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ میرے خیال میں جن ر یٹرننگ افسران نے اپنی املاک کی موجودہ حقیقی مالیت ظاہر نہ کرنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے ہیں، انہیں بھی معطل کر دیا جانا چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں