میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی شمالی ریاست راکھین میں ایک اجتماعی قبر کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کے فوجیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
اشتہار
میانمار کی فوج نے کہا ہے کہ وہ ریاست راکھین کے ایک گاؤں میں ایک ایسی اجتماعی قبر کی چھان بین کر رہی ہے، جس میں مبینہ طور پر بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر کے دفنا دیا گیا تھا۔ میانمار کی فوج پر یہ الزام اقوام متحدہ کی طرف سے لگایا گیا تھا کہ راکھین کے ایک گاؤں میں ملکی دستوں نے روہنگیا اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران بہت سے افراد کو قتل کر کے ان کی لاشیں اس اجتماعی قبر میں پھینک دی تھیں۔ غیر سرکاری تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق اس سال راکھین میں تنازعے کے آغاز کے پہلے ماہ میں ہی 6500 روہنگیا افراد مارے گئے تھے۔
عالمی ادارے کا میانمار کی فوج پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کی بڑے منظم انداز میں نسل کشی کی مرتکب ہوئی۔ راکھین سے اس سال اگست سے اب تک ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے مہاجرین کے طور پر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ منگل کے روز ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں میانمار کی فوج کی جانب سے اس سال 30 اگست کے بعد سے ’قتل اور ریپ کے منظم‘ مبینہ واقعات کو تفصیلی بیان کیا گیا ہے۔
جنرل من آنگ لینگ تشدد کا سلسلہ روک پائیں گے ؟
02:01
دوسری جانب میانمار کی فوج ان تمام الزامات کو رد کر چکی ہے اور متنازعہ ریاست راکھین میں داخلے کو بھی محدود رکھا ہوا ہے۔ پیر کے روز میانمار کے آرمی چیف کے فیس بک پیج پر لکھا گیا کہ خفیہ معلومات کی بنا پر کچھ فوجیوں کو راکھین ریاست کے ’دن‘ نامی گاؤں میں کچھ نامعلوم افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ اس فیس بک پوسٹ پر یہ نہیں لکھا گیا کہ میانمار کے فوجیوں کو کتنی لاشیں ملیں اور ان افراد کا تعلق کس مذہب یا علاقے سے تھا۔ تاہم فوجی سربراہ کے فیس بک پیج پر جاری بیان میں یہ لکھا گیا ہے کہ اگر ان افراد کے قتل میں فوجی اہلکار ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف سنگین کارروائی کی جائے گی۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
اس سال 25 اگست کو شدت پسند روہنگیا نے میانمار کے فوجیوں کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس ملک کی فوج نے راکھین میں روہنگیا افراد پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا اور روہنگیا شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کا بھر پور دفاع بھی کیا تھا۔ میانمار کی فوج نے ان شدت پسندوں پر ہندوؤں کو قتل کرنے کا الزام بھی اس وقت عائد کیا تھا جب ستمبر کے ماہ میں 45 افراد کی لاشوں کی ایک اجتماعی قبر ملی تھی۔ پیر کے روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے رہنما زید رعد الحسین نے گزشتہ روز نیوز ایجنسی اے ایف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا،’’ اگر کوئی عدالت روہنگیا مسلمان اقلیت کے میانمار میں قتل عام کو اُن کی نسل کُشی قرار دے دے تو انہیں اس بات پر قطعی حیرانی نہیں ہو گی۔‘‘