احتجاجی مظاہروں کی کوریج: ایران نے ڈی ڈبلیو پر پابندی لگا دی
26 اکتوبر 2022
ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد کئی ہفتوں سے جاری عوامی احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے باعث تہران حکومت نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے شعبہ فارسی سمیت کئی یورپی اداروں اور ان کے کارکنوں پر پابندی لگا دی ہے۔
اشتہار
ایرانی وزارت خارجہ کے بدھ چھبیس اکتوبر کے روز تہران میں کیے گئے اعلان کے مطابق جن یورپی اداروں اور ان کے کارکنوں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان میں جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کا شعبہ فارسی بھی شامل ہے۔
اعلان کے مطابق ڈی ڈبلیو فارسی کو بھی ایران کی طرف سے ممنوعہ اداروں اور افراد کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پابندی دو جرمن کمپنیوں اور جرمنی ہی کے کثیر الاشاعت روزنامہ 'بِلڈ‘ کے دو ایڈیٹروں پر بھی لگائی گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو کا شعبہ فارسی اس نشریاتی ادارے کے درجنوں دیگر زبانوں میں صحافتی شعبوں کی طرح اس انٹرنیشنل میڈیا ہاؤس کے جرمن شہر بون میں قائم صدر دفاتر سے کام کرتا ہے۔
’دہشت گردی‘ کی حمایت کا الزام
ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ جن یورپی اداروں اور ان کے کارکنوں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں، ان پر 'دہشت گردی کی حمایت‘ کا الزام ہے۔ ان پابندیوں کے تحت متعلقہ اداروں یا ان کے کارکنوں کا ایران میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے اور ان کی ایران میں املاک اور اثاثے ضبط کیے جا سکتے ہیں۔
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
تصویر: UGC/AFP
6 تصاویر1 | 6
ایران میں احتجاج میں حصہ لینے والے مظاہرین کو 'دہشت گرد‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ایران میں گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک گیر عوامی مظاہرے جاری ہیں۔ یہ احتجاج 16 ستمبر کے روز بائیس سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ امینی کی ہلاکت کو بدھ چھبیس اکتوبر کے روز ٹھیک 40 دن ہو گئے۔
اشتہار
’پابندی ناقابل قبول‘: ڈی ڈبلیو
ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے ڈی ڈبلیو پر لگائی گئی پابندی پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس اقدام سے ڈی ڈبلیو کی ایران اور ایران میں پیش آنے والے حالات و واقعات کی کوریج متاثر نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا، ''یہ حقیقت کہ اب ہمارےا دارے کا نام بھی اس ایرانی لسٹ میں شامل ہے، ہمیں اس کام سے روک نہیں سکے گی کہ ہم ایران میں اپنے صارفین کو قابل اعتماد معلومات فراہم کرتے رہیں۔‘‘
پیٹر لمبورگ نے کہا، ''ایرانی حکومت گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے شعبہ فارسی کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دیتی رہی ہے۔ یہ بات ناقابل قبول ہے۔ تہران حکومت خود اندرونی اور بیرونی سطح پر دہشت گردی کی حمایت کرتی ہے۔ میں جرمن اور یورپی سیاست دانوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ایرانی حکومت پر اپنا دباؤ بڑھا دیں۔‘‘
یورپی یونین ایران پر مزید پابندیاں لگائے گی؟
02:43
پابندیاں کن یورپی اداروں پر لگائی گئیں؟
ایرانی وزارت خارجہ نے جن یورپی اداروں پر پابندی لگائی ہے، ان میں فرانسیسی نشریاتی ادارے ادارے ریڈیو فرانس انٹرنیشنل کی فارسی سروس اور بین الاقوامی کمیٹی برائے تلاش انصاف (آئی ایس جے) بھی شامل ہیں۔ آئی ایس جی ایک ایسا غیر رسمی گروپ ہے، جس میں یورپی یونین کی پارلیمان کے وہ ارکان شامل ہیں، جو ایران میں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔
تہران حکومت کی طرف سے لگائی گئی پابندیاں یورپی یونین کی طرف سے 17 اکتوبر کو عائد کردہ ان پابندیوں کا جواب ہیں، جن کا ہدف ایران میں 'انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد‘ تھے۔
ایران میں عوامی مظاہروں میں شریک شہریوں کے خلاف حکام کی طرف سے کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد وفاقی جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا تھا کہ اب ایران کے ساتھ 'روابط حسب معمول جاری نہیں‘ رکھے جا سکتے۔
م م / ع ا
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔